ہندوستان میں اشاعت اسلام سے متعلق اعتراضات کا جائزہ
از: ڈاکٹر مفتی محمد شمیم
اختر قاسمی
ملک ہندوستان اورعرب دونوں ایک دوسرے
کے آمنے سامنے واقع ہے،البتہ درمیان میں سمندر حائل ہے،جس نے ایک
دوسرے کو الگ کر رکھاہے۔ہندوستان میں عربوں کی آمدو رفت بہت قدیم
زمانہ سے ہی جاری ہے ۔ بعثت نبوی کے وقت اور اس کے بعد بھی
یہ سلسلہ جاری رہا۔تا ہم عہد نبوی میں نور نبوت کے
جو اثرات یہاں پڑے اس کا تاریخی اور مستند رکارڈ نہیں
ملتا۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو ہندوستانی وفود بحری
راستوں سے ہندوستان آئے اس کے اچھے اثرات ضرورمرتب ہوئے ۔مذہب اسلام کی
اشاعت کے لیے بالخصوص ہندوستان میں جو کام ہوا اس کا علاقہ محدود رہا
اور جنوبی ہند کے علاوہ شمالی ہندکی طرف مسلمان تاجروں اور
مبلغوں کا آنا بھی مشتبہ ہے۔
ہندوستان میں اسلامی حملے شمالی
حصے میں اموی عہد میں ہوئے۔اسے اگر قرآنی پس منظر میں
دیکھا جائے تو یہ حملے یہاں کے ہنود کے ظلم وزیادتی
اور دین اسلام سے متعلق شر انگیزیوں اور فساد کاریوں کے
انسداد کے ضمن میں ہوئے۔کیوں کہ سندھ کے راجا داہر کی سب
سے پہلی اور بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے دشمنان
اسلام(علائی خاندان کے چند نوجوانوں ) کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی
تھی جس کی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نازیبا حرکتوں
کا ارتکاب کرتے تھے۔اس کے علاوہ اس کادوسرا جرم یہ تھا کہ راجہ کے ہی
ملک میں مسلمان مسافروں کو لوٹ لیا گیاتھا۔ یہ لوگ
مظلوم تھے اور قرآن نے ایسے ظالموں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔
حجاج بن یوسف نے نہایت عقلمندی
سے کام لے کر اپنے سفیر کو راجہ داہر کے پاس بھیجااور مسلمانوں کی
مدد کاخواستگارہوا،مگر وہ تعاون کے بجائے سخت سست جواب دیااور کہاکہ تم خود
ان لٹیروں سے نمٹ لو ۔گویا کہ راجہ داہر کی نادانستہ غلطی
تھی اوراس طرح اس نے مسلمانوں کو اپنے ملک میں حملہ کرنے کی
دعوت دے دی۔
یہ
امر بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں کو لوٹنے والے راجہ داہر کے ہی لوگ
تھے ،قرائن و شواہد سے یہی پتہ چلتا ہے۔بہر حال حملہ کا آخری
عمل محمد بن قاسم کے ذریعہ وقوع پذیرہوااور تھوڑی ہی مدت
میں پورا سندھ اسلام کے زیر نگیں ہو گیا۔محمد بن
قاسم کے بعدیہاں اہم فتوحات تو نہ ہوسکیں، البتہ سندھ کا تعلق مرکز
خلافت سے وابستہ رہا اور جب خلیفہ عباسی کی سیاسی
طاقت کمزور پڑگئی تو غزنین وبخارامیں ایک دوسری
سلطنت قائم ہوئی جس کے حکمراں سبکتگین ہوئے۔
غزنی کی سرحد ہندوستان سے ملتی
تھی۔چنانچہ محمد بن قاسم کے دوسوسال کے بعدپنجاب کے راجہ جے پال نے بے
جاغزنین کی مسلم سلطنت پر حملہ کرکے اسے اپنے ملک میں شامل کرنا
چاہااور دوسری طرف قرمطیوں کی سرپرستی کرنے لگے۔ان
لوگوں نے بھی اسلام اور اہل اسلام کو زدو کوب کرنے میں کوئی کسر
نہ چھوڑ رکھی تھی۔ لہٰذا سبکتگین نے ان راجاؤں سے
سخت جنگ کی اور اس کی طاقت کو کمزور ومنتشرکرکے قرمطیوں کے خلاف
سخت کاروائی کی۔
یہ بے جا مداخلت راجہ جے پال کی
طرف سے دوبارہ مسلمانوں کو ہندوستان پرحملہ کرنے کی ایک دعوت تھی۔صلح
حدیبیہ کو سامنے رکھا جائے اور راجہ داہر کی وعدہ خلافی
وعہد شکنی پر غور کیا جائے توصاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی
نظرمیں یہ لوگ مجرم تھے اور جن سے جنگ ناگزیر تھی۔اس
کے بعد محمود نے پے درپے حملے کرکے ہندوستان کے کچھ سر حدی علاقوں کو سلطنت
اسلامیہ سے ضرور جوڑدیا،مگر یہ الحاق مستقل نہ تھابلکہ عارضی
ہی رہا۔ محمود کے بعد اسی خاندان نے ڈیڑھ سوسال سے زائد عرصے
تک غزنین کی سلطنت کو زینت بخشی،تاہم انہیں وہ نمایاں
کامیابی نہیں مل سکی جو شہاب الدین غوری کے لیے
تھی۔
شہاب الدین کا حملہ ہند بھی
اسلامی نقطہ نظر سے اس لیے درست تھا کہ وہ مسلمان جو ملتان،پنجاب،
لاہور، بھٹنڈااوردوسرے علاقوں میں مقیم تھے اور جن کی نگرانی
کے لیے غزنی کے ولاة مامورتھے،وقتا فوقتا ان کی کمزوری سے
فائدہ اٹھاکرپرتھوی راج انہیں تکلیف پہونچاتا تھا۔اس کے
علاوہ ان علاقوں میں قرمطیوں کی طاقت دن بہ دن بڑھتی ہی
جارہی تھی،یہاں تک کہ یہ لوگ گجرات و کاٹھیاوارتک
اپنے اثرات کو وسیع کر چکے تھے۔ان کے عزائم ہندووٴں کے منصوبے
سے ملتے جلتے تھے،اس لیے ہندوبھی ان کی سرپرستی کرنے میں
پیش پیش تھے۔جب کہ غوری بھی قرامطہ کے وجوداور اس کی
حرکتوں سے سخت نالاں تھا۔
دوسری
طرف یہ سلطان غزنی فرما رواوٴں سے بھی بعض وجوہ کی
بناپر سخت عداوت رکھتا تھا۔لہذا شہاب الدین کے لیے اس کے علاوہ
کوئی چارہ ہی نہ تھا کہ وہ اپنی فوج لے کر ہندوستان پر چڑھائی
کرے اورمسلمانوں کو یہاں کے راجاوٴں کے ظلم اوردین کے دشمنوں سے
نجات دلائے۔ قرآن نے ایسے حملوں کی اجازت دے تے ہوئے صاف اعلان
کیا ہے :
اذن للذین
یقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علیٰ نصرھم لقدیر۔(الحج:۳۹)
(اجازت
دی جاتی ہے ان لوگوں کوجن سے جنگ کی جارہی ہے کہ وہ بھی
جنگ کریں،اس لیے کہ وہ مظلوم ہیں اور یاد رکھیں کہ
اللہ ان کی نصرت پر قادر ہے۔)
معترضین اسلام کا اعتراض کب درست ہوتا:
ہندوستان میں اسلام کی اشاعت
کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے جاتے ہیں بالعموم وہ وہی ہیں
جو پوری دنیا میں اسلام کے پھیلنے کے سلسلے میں کیے
جاتے ہیں ۔حضرت محمد …سے لے کر بعد کے جتنے مسلمان فرمارواوٴں
نے دنیا کے جن جن علاقوں میں حکمرانی کی ان میں بیش
تر کے سلسلے میں یہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان
حکمرانوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کوپھیلایا۔البتہ یہ
اعتراضات ہندوستانی افق پرزیادہ واضح نظر آتے ہیں ۔مگر
تعجب کی بات یہ ہے کہ ان اعتراضات کی ابتدااس وقت ہوئی جب
مسلمان حکمرانوں کی تلوارزنگ آلودہو گئی تھی۔ مولانا
ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پہلو پر بہت اچھے انداز میں روشنی
ڈالی ہے:
”دور جدید میں یورپ نے
اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں
ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خون خوار مذہب ہے
اور اپنے پیرووٴں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا
ہے۔اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی توقدرتی طورپر
اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب کہ پیروان اسلام کی شمشیر
خارا شگاف نے کرہ زمین میں ایک تہلکہ برپا کررکھا تھااورفی
الوقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا، کہ شاید ان کے یہ
فاتحانہ اقدامات کسی خوں ریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔مگر
عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتاب عروج اسلام کے غروب
ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں آئی اور اس کے خیالی پتلے میں
اس وقت روح پھونکی گئی جب کہ اسلام کی تلوار توزنگ کھاچکی
تھی مگر خود اس کے موجد یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ
ہورہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزورقوموں کو اس طرح نگلنا
شروع کردیا تھا جیسے کوئی اژدہاچھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا
اورنگلتاہو۔اگر دنیا میں عقل ہوتی تووہ سوال کرتی
کہ جب لوگ خود امن وامان کے سب سے بڑے دشمن ہوں جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین
کے چہرہ کو رنگین کردیا ہو اور جو خود قوموں کے چین وآرام پر
ڈاکے ڈال رہے ہوں ، انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں
جس کی فرد جرم خود ان پر لگنی چاہیے؟کیا ان تمام موٴرخانہ
تحقیق و تفتیش اور عالمانہ بحث واکتشاف سے ان کا یہ منشا تو نہیں
کہ دنیا کی اس نفرت وناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی
طرف پھیر دیں جس کے خود ان کی اپنی خوں ریزی
کے خلاف امنڈ کر آنے کا اندیشہ ہے۔“(۱)
اسلام
کے خلاف جس قدرپروپیگنڈے ہوئے،اسلام اتنا ہی زیادہ پھیلا:
عالمی افق پریا پھر ہندوستانی
تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اشاعت اسلام سے متعلق اس
پروپیگنڈے کے باوجود اسلام ہرجگہ تیزی سے پھیل رہاہے۔حالاں
کہ اسلام کے علاوہ اوربھی بہت سے مذاہب ہیں جن کے ماننے والوں کی
تعداد بہت ہے۔خود ہندوستان میں اسلام پر روک لگانے کے لیے بڑی
بڑی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور اس سے متعلق لوگ بڑی
تعداد میں پورے ہندوستان میں پھیلے ہوے ہیں۔باوجود
اس کے انہیں اس میں کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ہندو
مذہب کے ماننے والے ہوں یا بدھ دھرم کے علم بردار،یاپھرجینی
ہوں یاسکھ فرقوں کے لوگ۔ بحیثیت مذہب کے ان کی
تعداد میں کمی ہورہی ہے اور اسلام کے ماننے والوں میں
اضافہ ہورہا ہے۔اسلام خون خوار مذہب ہوتا تویہ عمل موقوف ہوجاتا۔بلکہ
سچی بات یہ ہے کہ پروپیگنڈہ ہی اسلام کی اشاعت کی
راہ ہموار کررہاہے۔ ایک ہندومفکر راجندر نرائن کے اس خیال میں
صداقت نظر آتی ہے:
”دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام
کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے خلاف جس قدرغلط
پروپیگنڈہ ہوا کسی دوسرے دھرم کے خلاف نہیں ہوا۔سب سے
پہلے تو رسول اللہ…کے قبیلہ قریش ہی نے اسلام کی مخالفت کی
اوردوسرے کئی ذرائع کے ساتھ غلط پروپیگنڈہ اورمظالم کا راستہ اپنایا۔یہ
بھی اسلام کی خصوصیت ہی ہے کہ اس کے خلاف جس قدر پروپیگنڈہ
ہوااتناہی پھیلتا اورترقی کرتاگیااوریہ بھی
اسلام کے سچے اورالٰہی دین ہونے کا ایک ثبوت ہے۔اسلام
کے خلاف جس قدر پروپیگنڈے کیے گئے اورکیے جاتے ہیں ،ان میں
سب سے جارحانہ پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔اگر
ایسا نہیں ہے تو دنیا میں متعددمذاہب کے ہوتے ہوئے اسلام
ہی معجزاتی طورپردنیابھرمیں کیسے پھیل گیا؟
اس سوال یاشبہ کا مختصرا جواب تویہ ہے کہ جس زمانہ میں اسلام کے
اس نئے ایڈیشن کی اشاعت ہوئی سابقہ دھرموں کے بے کردارپیروکاروں
نے دھرم کوبھی بھرشٹ کردیا تھا،اس لیے انسانی فلاح کی
خاطراللہ کی مرضی کے مطابق اسلام کامیاب ہوا اور دنیابھرمیں
پھیلا،تاریخ اس کی گواہ ہے۔“(۲)
ہندوستان
میں اشاعت اسلام سے متعلق معترضین کے گروہ وادوار:
ہندوستان میں اشاعت اسلام پر اعتراض
کرنے والوں کو دو گروہ اوردوادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔پہلا
گروہ انگریزوں کا ہے جنہوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی
اور ان کے زیرسایہ عیسائی مشنریوں نے تبلیغ عیسائیت
کی منصوبہ بند کوششیں شروع کیں ۔اسلام ان کے مقاصد کی
تکمیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا،چنانچہ انہوں
نے اسلام پر عیسائیت کی بالا تری دکھانے کے لیے اس
کے مختلف پہلووٴں پر جارحانہ حملے کیے اوراسلام کو ایک خوں
آشام،غیرمتمدن اورفرسودہ مذہب ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی
کا زورلگایا۔(۳) اسی
زمانے میں انگریزوں کے زیر اثر بعض ہندووٴں نے بھی
اسلام کے خلاف مناظرانہ محاذآرائی کی۔دوسرا گروہ ہندووٴں
کا ہے ۔ان اعتراضات کا سلسلہ بالخصوص ہندوستان کی آزادی کے بعد
سے شروع ہوتاہے۔اگرچہ پہلے اس میں اتنی شدت نہ تھی جتنی
کہ بعد کے زمانے میں یاعہدحاضر میں پائی جاتی ہے۔ایک
خاص جماعت جوہندوتو کی علم بردارہے، اس میں پیش پیش ہے۔کیوں
کہ وہ ملک میں ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کا غلبہ چاہتی ہے ۔یہ
لوگ باوجود اپنی تمام تر کوششوں کے نہ تو مسلمانوں کو حلقہ بگوش کرسکے ہیں
اور نہ ہی اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کو اسلامی تہذیب
کے مقابلہ میں برتر ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اس
لیے اب انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ اسلام میں زبردستی
خامیاں نکالی جائیں اورپروپیگنڈے کے زورپر عوام کے سامنے
اسے بھیانک شکل میں پیش کیا جائے۔(۴) اس کے لیے اب انہوں نے ٹی وی
چینلوں، ڈراموں، افسانوں، فلموں ،قصوں، کہانیوں اور جھوٹی تاریخ
نویسی کا سہارالیا ہے اوروہ مختلف قسم کے بے بنیاد بلکہ خیالی
مناظر کے ذریعہ پروپیگنڈہ پھیلاکر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔
اعتراضات
کے مصادر پر ایک نظر:
ہندوستان میں اشاعت اسلام سے متعلق
بالعموم جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اسکا شاخسانہ اول وہ لٹریچر
ہے جو انگریزوں نے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے
تحت تیار کیا، جس کا خاص مقصد یہ تھا کے یہاں کی دو
بڑی قومیں ہندووٴں اور مسلمانوں (جو عرصہ دراز سے پر امن ماحول
میں روادارانہ طریقے سے زندگی بسر کرتے آرہے ہیں )کے درمیان
منافرت کی آگ بھڑکا دی جائے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں
اور انہیں اتنی فرصت نہ ملے کہ ہماری جابرانہ اور غاصبانہ حکومت
کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھ سکیں۔چنانچہ جب انہوں نے
ہندوستان کی تاریخ رقم کی توایک طرف مسلمان بادشاہوں کو
ظالم و جابرٹھہراتے ہوئے لکھا کہ وہ ہندوؤں کے سخت دشمن تھے،دوسرے مذاہب کے ماننے
والوں پر مظالم ڈھاتے اور ان کے مذہبی مقامات کو مسمار کرتے تھے،تو دوسری
طرف یہ شوشہ بھی چھوڑدیاکہ شیواجی مسلمانوں کے حق میں
بڑے سخت واقع ہوئے تھے، کیوں وہ ہندو پرست تھے۔اس قسم کے اعتراضات سب
سے پہلے بمبئی کے گورنرالفسٹن کے قلم سے صفحہ قرطاس پر آئے اور جو بہت
جلدملک کے کونے کونے میں پھیلا دیے گئے۔یہاں تک کہ
اسے شامل نصاب کرکے بچوں کو بھی پڑھایا جانے لگا۔(۵)
ہسٹری آف انڈیااور آکسفورڈہسٹری
آف انڈیا،تاریخی اعتبارسے بڑی اہم کتابیں سمجھی
اور پڑھی جاتی ہیں،یہ ڈاکٹر ونسنٹ اے اسمتھ کی سخت
عرق ریزی کے ساتھ بڑی لاگت کے بعد زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔ان
کی جو انفرادیت اور اہمیت ہے وہ بھی اہل علم کے نزدیک
مسلم ہے ،مگر اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں بہت سے اہم گوشے واضح ہوتے ہیں وہیں
زہریلے بیانات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔اکثر معمولی
واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلم حکمرانوں کی خوبیوں پر پردہ
ڈالا گیا ہے اور خامیوں کو مبالغہ کے ساتھ بیان کیا گیا
ہے ،اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان سلاطین متعصب اور
تنگ نظرتھے،ان کا مقصد ہندوؤں کو تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا،ہندوستان میں
اکثرمسلمانوں کے آباء واجداد خوف یا لالچ سے مذہب تبدیل کیا
تھا،اور انگریزوں نے آکر ہندوؤں کومسلمانوں کے پنجہ ظلم سے نجات دلائی۔
الیٹ اور ڈاؤس نے ہندوستان کی
جو تاریخ لکھی اس میں بھی فرقہ وارانہ روش اختیار کی
گئی ہے۔اس کے دیباچہ میں نہ صرف مسلمان بادشاہوں کو ظالم
و جابر ٹھہرانے کے لیے پوری علمی توانائی استعمال کی
گئی ہے ،بلکہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی شخصیت
کو بھی مجروح کیا گیاہے۔(۶)ایسا
انہوں نے کیوں کیااس کی وضاحت خود مصنف نے کتاب کے دیباچہ
میں کر دی ہے جو مصنف کی بڑی لغزش تھی۔جس کے
متعلق پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا ہے:
”ہمیں الیٹ کا مشکور ہونا چاہیے
کہ اس نے اپنے مقاصد کا اظہار ایک عرض داشت (Memorandum) میں انگلستان کی حکومت سے کر نے کا فیصلہ کیا،اس
عرض داشت کو بعد میں کتاب کاجزو بنا کر شائع کردیا گیا،بغیر
یہ سوچے کہ مستشرقین کے خلاف یہ سب سے بڑی دستاویز
ہے جو ان کے مفسدانہ مقاصد کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہے۔“(۷)
علامہ سید سلیمان ندوی
نے بھی موٴرخ کی کتاب پرجو تنقیدی ریمارک کیا
ہے وہ بڑا ہی دلچسپ ہے اور جس سے ان کے عزائم کا پردہ فاش ہوتا ہے ۔(۸) اسی طرح عصر حاضر کے ایک مورخ
نے مذکورہ کتاب کے متعلق جو رائے ظاہر کی ہے اس سے مصنف مذکور کی
اسلام دشمنی تو ظاہر ہوتی ہی ہے،مزید بر آں اس کتاب کی
اہمیت بالکل گھٹ جاتی ہے اور اس کی اسناد مکمل مشکوک ہوکر سامنے
آجاتی ہے۔اس سیاق میں ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی
لکھتے ہیں:
”خود ہندوستان میں برسوں پہلے سرہنری
الیٹ اپنی مشہور کتاب ” ہندوستان کی تاریخ خوداپنے مورخین
کی زبانی“ ترتیب دے چکے تھے اوران کے انتقال کے بعد ڈاؤسن کی
کوششوں سے شائع بھی ہو چکی تھی۔اس کتاب کا بنیادی
مقصدیہ ثابت کرنا تھا کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی حکومت ایک
بے حد جابرانہ اور انتہائی ظالمانہ حکومت تھی ،جس کا عدل و انصاف سے
کوئی واسطہ نہ تھا اور جس کے زیر سایہ بنیادی انسانی
اقدار قطعی غیر محفوظ تھیں۔سازش ،شراب نوشی،عیاشی
اورقتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔عیش وطرب کے لوازم مہیا
کرنے کے لیے عوام کا بے دردانہ استحصال جس کا نشانہ خصوصاً غیر مسلم
عوام ہوتے تھے،اس حکومت کا نشانہ امتیاز تھا۔معاشی استحصال،سماجی
نابرابری اور مذہبی رواداری کا یکسر فقدان اس عہد کی
نمایاں خصوصیات تھیں۔غرض اس کتاب کے صفحات سے مسلم دور
حکومت کی ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جو کسی
بھی طرح قابل فخر نہیں کہی جاسکتی۔اس مقصد کے حصول
کے لیے بڑی مہارت اور چابک دستی سے اقتباسات کو ایک خاص
ترتیب سے اکٹھا کیا گیاہے اور انہیں اپنے مخصوص سیاق
وسباق سے الگ کر کے پیش کیا گیاہے۔ اقتباسات کے انتخابات
میں یہ بات خاص طور سے ذہن میں رکھی گئی کہ صرف ایسے
حصوں کو منتخب کیا جائے جن سے مسلم حکمرانوں اور ان کے نظام حکومت کی
نہایت مکروہ اور گھناوٴنی تصویر ابھر کر سامنے آئے۔“(۹)
اسی طرح ایم۔اے۔ٹائیٹس
نے مسلمان بادشاہوں کے متعلق جو زہریلا مواد قارئین کی نظر کیا
ہے وہ بھی بڑادل خراش ہے ، جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے
سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ایک لائحہ عمل تیار
کیا تھااور جس پر بعد تک عمل ہوتا رہا۔ جس میں اس نے بالخصوص
محمد بن قاسم اور اورنگ زیب سے متعلق سخت بہتان تراشی کرتے ہوئے لکھا
ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ میں مندروں کے انہدام کا جو منصوبہ بند پروگرام
شروع کیاتھا،عہدعالم گیری تک جاری رہا۔(۱۰)
بڑی دلچسپ مگر بالکل جھوٹ بات تو یہ
ہے کہ’ لارڈالن برو‘نے محاربہ قابل کے بعد ۱۸۴۲ء میں
سلطان محمود غزنوی کے مقبرے سے صندل کے کنوار اکھڑواکر غزنی سے آگرہ
تک اس کا جلوس اس اعلان کے ساتھ نکالا کہ سلطان یہ کنوار سومناتھ سے لے گیاتھا۔(۱۱)
یہ اور اس قسم کی دوسری
غلط و بے بنیاد باتیں عوام کے سامنے پیش کرکے عوام کے ذہن میں
غلط تاثر پیش کرنے کا جو سلسلہ جاری ہوا ، مرور زمانہ کے ساتھ اس میں
اضافہ ہی ہوتا گیا۔حالاں کہ جس کنوار کی تشہیرکی
گئی اس کے متعلق جلد ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہو گئی
کہ یہ باتیں غلط ہیں اور اس کا تعلق سومنا تھ سے نہیں
ہے،بلکہ یہ مسلمانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔(۱۲)
یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ
کہ کنوار کی تشہیر جلوس کے ذریعہ کی گئی جس کو سب
نے دیکھا،مگر حقیقت کا اظہار تحقیق کے ذریعہ ہوا، جس کا
علم بہت کم لوگوں کو ہو سکا۔اس واقعہ سے عوام کا ذہن کس حد تک پراگندہ ہوا
ہوگا اس پر تبصرہ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔
سب جانتے ہیں کہ عہد وسطیٰ
کی تاریخ لکھنے کی طرف ہندووٴں نے توجہ نہ دی ۔سوائے
کلہن کی راج ترنگی کے کوئی اہم تاریخی کتاب ہندووٴں
کے یہاں نہیں پائی جاتی اور وہ بھی کشمیر کے
حالات سے تعلق رکھتی ہے۔تاریخ نویسی کا کام
مسلمانوں نے ابتدا سے کیا ہے اور یہ فن ہندوستان میں سلاطین
کے عہد میں عروج پر پہونچا۔کم وبیش اکثر فرما رواوٴں کے
زمانہ کی تاریخ کسی نہ کسی حد تک رقم ہوئی۔جس
کی زبان فارسی،عربی اورترکی ہی تھی۔انگریز
شاہ جہاں کے زمانہ سے ہندوستانی افق پر ابھرے۔اس وقت تک اس کی حیثیت
اس ملک میں بس اتنی تھی کہ سلاطین اور امرا کو جب کبھی
اس کی عیاری اور مکاری کا علم ہوتا تو اس کی گوش
مالی اچھی طرح سے کر دیتے اور وہ ادھرسے ادھر منتشر ہوجاتے تھے۔اس
نے بتد ریج ہندوستان میں قدم جمائے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اس مختصر اور
افرا تفری کے زمانے میں انگریزوں نے کیوں کر اور کس طرح
عربی ،فارسی اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل کر لیا کہ وہ
اپنی تاریخی کتابوں میں مسلمانوں کی تاریخ
اور دوسری کتابوں کا حوالہ بڑے کروفر سے پیش کرتے ہیں،اور پھر
مسلمان مورخ اپنی تاریخی کتابوں میں اپنے بادشاہوں کے
ناکردہ مظالم کا ذکرکیوں کرتے جن کا حوالہ انگریز مورخوں نے دیا
ہے۔اہم بات تو یہ ہے کہ اس عہد میں جو تاریخی کتابیں
تھیں ان میں سے اکثر کتابیں آج بھی پائی جاتی
ہیں ،جن میں ان بادشاہوں کے مظالم کاذ کر نہیں ہے،اور اگر کہیں
کہیں اس طرح کی کچھ باتیں پڑھنے کو مل بھی جاتی ہیں
تو اس کے سیا ق وسباق سے واقعہ کو جوڑ کر نتیجہ نکالا جانا چاہیے۔
انگریز مورخوں کی دروغ بیانی
تو اس بات سے بھی ظاہر ہو تی ہے کہ وہ اپنے حوالوں میں مقامی
روایت اورگزیٹیر کا حوالہ کثرت سے دیتے ہیں۔سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں کب اتنا وقت میسر آگیا کہ
انہوں نے ہندوستان کے ہر علاقے کا سروے تیار کرکے اس کا مکمل ریکارڈجمع
کرلیا۔ یہ بات درست ہے کہ اوپر جن کتابوں کا ذکر ہوا ہے ان میں
بیشتر کتابیں ۱۹/ویں
صدی کے اختتام تک یا آزادی سے قبل زیور طبع سے آراستہ ہو
چکی تھیں۔اس وضاحت سے راقم کا مدعا یہ ہے کہ انگریز
وں کی لکھی ہوئی کتابیں تاریخی اسناد سے خالی
ہیں اور مقامی روایات کی جو کثرت ہے وہ مکمل مشکوک ہے۔(۱۳)اس لیے تاریخ سے دلچسپی
رکھنے والے حضرات کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور
مطالعہ کے وقت بالخصوص ان کی تاریخی اسناد کو ملحوظ رکھاجانا
چاہیے ۔
اس سلسلے کی آخری بات یہ
ہے کہ انگریزوں کو ان زبانوں پر عبور حاصل تھا تو پھر انہوں نے تصنیف
وتالیف اورتراجم کے جو ادارے قائم کیے اس میں مسلمان عالموں کی
مدد حاصل نہ کرتے،اگر ان کے معاش کی انہیں فکر تھی تو دوسرے اہم
شعبوں میں مسلمانوں کی جوقلت ہو گئی تھی اس کا کیا
جواز ہوسکتا ہے؟در اصل ہندوستان کی تاریخ اورتذکروں کے تراجم وغیرہ
پر انہوں نے جو محنت کی اس سے اسلام کی محبت کے بجائے عناد کا پہلو
ظاہر ہوتا ہے۔کیوں کہ انہوں نے اپنے مقاصد کی کامیابی
کے لیے واقعات کو اس انداز میں توڑمڑورکر پیش کیا ہے کہ
اصل واقعہ پلٹ کر رہ گیااورفرقہ واریت کی بو اس سے ظاہر ہونے لگی
ہے۔چنانچہ مستشرقین کے عزائم کا پردہ فاش کرتے ہوے نو مسلم مفکر علامہ
اسد لکھتے ہیں:
”یورپین کا رویہ اسلام
کے بارے میں اورصرف اسلام ہی کے بارے میں دوسرے غیر مذاہب
اور تمدنوں سے بے تعلقی کی ناپسندیدگی ہی نہیں
بلکہ گہری اور تقریبابالکل مجنونانہ نفرت ہے ۔یہ محض ذہنی
نہیں ہے بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ بھی ہے ۔یورپ
بدھشٹ اور ہندو فلسفوں کی تعلیمات کو قبول کرسکتا ہے اور ان مذہبوں کے
متعلق ہمیشہ متوازن اور مفکرانہ رویہ اختیار کرسکتا ہے۔مگر
جیسے ہی اسلام کے سامنے آتا ہے ،اس کے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے
اور جذباتی تعصب آجاتا ہے۔بڑے سے بڑے یورپین مستشرقین
بھی اسلام کے متعلق لکھتے ہوئے غیر معقول جانب داری کے مر تکب
ہو گئے ہیں.... اس طریقہ عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ
کے مستشرقین کے ادب میں ہمیں اسلام اور اسلامی معاملات کی
بالکل مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔یہ چیز کسی ایک
خاص ملک میں محدود نہیں بلکہ جرمنی، روس، فرانس، اٹلی،
ہالینڈ، غرض ہر جگہ جہاں یورپین مستشرقین نے اسلام سے بحث
کی ہے ۔ انہیں جہاں کہیں بھی کوئی واقعی
یا محض خیالی ایسی بات نظر آتی ہے جس پر
اعتراض کیا جاسکے وہاں ان کے دل میں بدنیتی کی مسرت
کی گدگدی ہونے لگتی ہے۔“(۱۴)
ان کے علاوہ ڈاکٹر توقیر عالم فلاحی
کا یہ تبصرہ بھی اس تناظر میں بڑاہی معنی خیز
معلوم ہوتا ہے:
”سترہویں اور اٹھاڑہویں صدی
عیسوی کو ذہنی وفکری بیداری کے دور سے جانا
جاتا ہے،جس میں مستشرقین نے افسانوں،من گھڑت کہانیوں،اوہام وخرافات
اور ثانوی مصادر سے قطع نظر بنیادی اور اہم مصادرشریعت
اسلامیہ اورمعروف و مشہور علمی مراکز کو اپنی توجہات کا مرکز
بنایا۔اسی طرح معقولیت اور عدل وانصاف کے ساتھ ساتھ تعصب
وجارحیت کے عناصر بھی علمائے استشراق کے فکرو عمل کے دائرہ کار میں
آنے لگے۔پھر بیسویں صدی کا ربع اول اس لحاظ سے منفرد ہے
کہ مستشرقین نے کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے اس دور میں
وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔یہی وہ
زمانہ ہے جس میں فرانس،ہالینڈ،اسٹریلیا،انگلینڈ،
جرمنی،سوئزر لینڈ، روس ،فن لینڈاور امریکہ کے مستشرقین
سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔“ (۱۵)
آج ہمارے ملک کے بہت سے اہل علم اپنی
تحقیق کی وضاحت اسلامی شریعت کے حوالے سے ’انسائیکلوپیڈیاآف
اسلام‘کی روشنی میں کرتے ہیں،اسلامی فقہ کے نکتے میکڈانل
کی کتاب کے ذریعے سے بتائے جاتے ہیں،اسلامی مسائل کا حل ریورنڈہیوکی’
ڈکشنری آف اسلام سے پیش کیا جاتا ہے۔مسلمانوں کی
حکومت،بادشاہی اور مالیات کے نظریے آرنلڈاور اگلائی نڈیز
کی عینک سے دیکھے جاتے ہیں۔(۱۶) ان کتابوں میں یقینا بہت سی
کارآمد باتیں دیکھنے اور پڑھنے کو مل جائیں گی ،مگر قابل
اعتبار وہی باتیں ہوں گی جس کی تائید وتوضیح
کسی دوسرے اہم ماخد سے ہو جائے۔چنانچہ علامہ سید سلیمان
ندوی نے ایک طرف انگریزوں کی علمی خدمات کو سراہا
ہے تو دوسری طرف ان کی اسلامی خدمات کے منشا کو مشکوک ٹھہراتے
ہوئے یہ بھی رقم کیا ہے:
”یورپین مستشرقین نے
اسلامی علوم وفنون کی جو خدمت کی ہے ،اس کا اعتراف ہے۔مگر
مذہبی،شرعی اور فقہی معاملات میں ان کی تحقیق
یا رائے پر کسی حال میں بھی اعتماد نہیں کیا
جاسکتاہے۔اس لیے مسلمان فرمارواؤں کے کسی رویہ یا
پالیسی کو ان کے مذہب کی روشنی میں اگر دیکھنے
کی کوشش بھی کی جائے تومذہبی معاملات کا ماخذ اور سرچشمہ
خود مسلمان علماء وفقہاکی اور یجنل،مستند ومعتبرکتابیں ہونی
چاہیں،لیکن زبان کی ناواقفیت کی وجہ سے ان کتابوں
کا سمجھناممکن نہ ہو توپھرایسے موضوع اور مسئلہ پر قلم اٹھانے کا حوصلہ نہ کیا
جائے۔نیت خواہ کتنی ہی اچھی اور صاف ہو مگر مذہبی
مسائل کی غلط تعبیر اور کلی امور میں ان کی غلط تطبیق
سے بعض اوقات ایسے ضرر رساں پہلو پیدا ہوجاتے ہیں جن سے ایک
طرف تو حقیقت کا خون ہوتا ہے اور دوسری طرف قوموں کے جذبات میں
تلخی پیدا ہوتی ہے۔“(۱۷)
اسی طرح کی باتیں ایک
دوسرے مبصر کی تحریر میں بھی تلاش کی جاسکتی
ہے:
”بلاشبہ بہترے علمائے استشراق اپنی بیشتر
تحریروں میں علمی دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوے
نظر آتے ہیں ۔ لیکن انہیں میں ایسے علماء بھی
خاصی تعداد میں ہیں جنہوں نے تعصب اور تنگ نظری کا سہارا
لیتے ہوئے دروغ گوئی اورعلمی خیانت کا ارتکاب کیاہے
اور اس طرح اسلام کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔“(۱۸)
جرجی زیدان نے تمدن اسلامی پر
بیش بہااور بڑاہی قیمتی لٹریچر مسلمانوں کی
حمایت اور بظاہر اسلامی علوم سے متأثر ہوکر تیار کردیا
ہے، جو چار جلدوں پر مشتمل ہیں۔اس کتاب کی مقبولیت کا
اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسلم مفکر اسلامیات پر تحقیقی
کاکام کرتا ہے تو اس کتاب سے خوشہ چینی کیے بغیر نہیں
رہتا۔لیکن اس کتاب نے اسلامی علوم وافکار پر جو کاری ضرب
لگائی ہے اس کا اندازہ مولانا شبلی کے اس بیان سے بخوبی
لگایا جاسکتا ہے:
جرجی زیدان ایک عیسائی
مصنف نے یہ کتاب چار حصوں میں لکھی ہے ،جس میں مسلمانوں کی
تہذیب و تمدن کی تاریخ لکھی ہے،اس کتاب میں مصنف نے
در پردہ مسلمانوں پر بڑے اور متعصبانہ حملے کیے ہیں،لیکن بظاہر
مسلمانوں کی مدح سرائی کی ہے،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ
لوگوں کی نظر ان کی فریب کاریوں پر نہیں پڑی
اور کتاب گھر گھر پھیل گئی۔“(۱۹)
پروفیسرآرنلڈکی کتاب پریچنگ
آف اسلام کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں غیر معمولی
شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں ہندوستان کے حوالے سے بحث میں
اسلام کی اشاعت کا سارا سہرا صوفیائے کرام کے سر ڈال دیا گیا
ہے اور کم از کم اس اعتراض سے ہندی مسلمانوں کو نجات ملی جو دوسرے
انگریز موٴرخوں نے کی ہے کہ اسلام کی جبری اشاعت ہوئی
ہے اور سلاطین وقت نے تلوار کے ذریعہ لوگو ں کواسلام قبول کرنے
پرمجبور کیا۔مگر اس کتاب کی زمانہ تصنیف پر بھی نظر
رکھی جائے۔ایک طرف الزام و اتہام کا لامتناہی سلسلہ جاری
ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سرد کرنے کے لیے اس پر پانی
پھیرا جارہاہے اور اس سے انکار کیا جارہاہے کہ اسلام کی اشاعت
تلوار سے نہیں ہوئی اور پھر مزے کی بات یہ ہے کہ موٴرخ
مذکورکی کتاب سے حوالے بھی پیش کیے جارہے ہیں۔
اس کتاب میں کہیںآ پ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ آرنلڈ نے
انگریز موٴرخوں کی تحریر پر تنقید کی ہواور
ان کی عصبیت کا پر دہ فاش کیا ہو ۔چنانچہ اس کتاب کی
تصنیف کے مقاصد کا یقین دلاتے ہوئے عہد حاضر کے ایک مبصر
نے لکھا ہے کہ:
”یہ بات بعید از قیاس ہے
کہ اسلام کے مخالفین اس کے ایک پہلو کو بغیر کسی خاص سبب
کے وکالت کرنے لگیں۔اصولی طور پریہ ممکن نہیں کہ
اصل کا مخالف فرع کی حمایت کا بیڑا اٹھالے،اس کے لیے کسی
بہت خاص وجہ اور سبب کی موجودگی ضروری ہے۔ظاہر ہے
مقصداسلام سے ہمدردی ہرگز نہ تھی بلکہ پیش نظرانہیں مقاصد
کا حصول تھاجن کے لیے اول الذکرذریعہ استعمال کیا گیا تھا۔راستہ
بالکل مختلف تھالیکن نتائج وہی حاصل کرنے تھے۔ مقاصد کے گھناؤنے
پن کو البتہ بڑی چابک دستی سے ہمدردی کے دبیز تہوں کے نیچے
چھپا دیا گیاتھا۔ مسلمانوں میں تصوف اور صوفیائے
کرام کی غیر معمولی مقبولیت کے سہارے ان کی سوچ کے
دھارے کو غیر محسوس طور پرایک نیا رخ دینے کی یہ
نہایت شاطرانہ چال تھی۔“(۲۰)
یہ وہ زمانہ تھا کہ طرح طرح سے اسلام
اور مسلمانوں پر انگریزوں کی طرف سے اعتراضات کی بوچھار یں
کی جارہی تھیں اور اس طرح مسلمانوں کو اپنے دین و مذہب پر
گامزن رہنے سے روکا جارہا تھا،جس کا شافی جواب دینامسلمانوں کے لیے
ضروری ہو گیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ اس آواز کو دبانے کے
لیے ہندوستان کے مختلف علماء نے مختلف اداروں اورمحاذوں سے آواز اٹھائی۔
جب رسول پاک صلى الله عليه وسلم کی سیرت پرکیچڑ اچھالا گیا
توسرسید نے اس کا مدلل اور مکمل جواب دیا اور ان کے مفسدانہ خیالات
کی قلعی کھولی۔ مولانا شبلی تو پوری زندگی
مستشرقین کے پیدا کیے ہوئے پرو پگنڈہ کا پردہ فاش کرنے میں
لگے رہے، جس کے متعلق پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:
”مولانا شبلی مدت العمرمستشرقین
کی پیدا کی ہوئی گمراہیوں سے برسر پیکار رہے،
قرآن کے عدیم الصحہ ہونے کا دعویٰ جب لندن ٹائمس میں کیا
گیا تو مولانا شبلی نے اس پر پر زور تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:”
ہم بتا دیں گے کہ قرآن مجید ہزاروں دلائل سے انجیل نہیں
بن سکتا ۔“اس ایک جملہ میں اس ذہنی کاوش کا پورا پس منظر
سمٹ آیا ہے،جو مستشرقین کی ان کوششوں کامحرک تھا ۔پادری
بروچلی نے تعدد ازدواج پر اعتراضات کیے تو مولانا شبلی کا قلم
حرکت میں آیا ۔جرجی زیدان کی کتاب تاریخ
تمدن اسلام کی پردہ دری کا کام مولانا شبلی نے ہی انجام دیا۔(۲۱) آرمینا کے جھگڑوں میں
مستشرقین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسلام
میں عیسائی رعایا کے ساتھ ماضی میں شدید
مظالم ہوچکے ہیں اور اسلام میں یہ ظلم جائز بلکہ ضروری
قرار دیا گیا ہے ۔مولانا شبلی نے حقوق الزمین اور
الجزیہ لکھ کر ان الزام تراشیوں کوبے اثر کر دیا۔جب سیرت
النبی پر قلم اٹھایا تو سب سے پہلے مستشرقین کے پیدا کیے
ہوئے اثرات کا جائزہ لیا۔اسی مقصد کے پیش نظرمولانا سید
سلیمان ندوی نے ۱۲۔۱۹۱۱ء میں
الندوہ میں ایک طویل سلسلہ مضامین شائع کیا جن میں
مستشرقین کے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔“(۲۲)
مستشرقین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے
کاایک دوسرا محاذ یہ بھی تھا کہ عیسائی پادری
جگہ جگہ پہونچ کرمسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتے اور اپنے مذہب کی
اشاعت کرتے،اور لوگوں کو دین اسلام سے بر گشتہ کرکے مرتد بناتے تھے ،جن کے
خلاف علماء کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہوگئی اور اس کا
دندان شکن جواب دیا۔ان علماء کی خدمات کوسراہتے ہوئے پروفیسر
مذکور رقم طرازہیں:
”ہندوستان میں مستشرقین کے پیدا
کیے ہوئے اثرات کے خلاف جن علما نے پیہم جدوجہد کی ان میں
مولانا محمد قاسم نانوتوی ،مولانا رحمت اللہ کیرانوی،مولانا شبلی
،مولانا محمدعلی مونگیری،ڈاکٹر محمداقبال اورسیدامیرعلی
کے نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ہندوستان
میں مشزی اورمستشرق کی سازش نے نازک صورت حال پیدا کردی
تھی۔میورنے خود لکھا ہے کہ اس نے اپنی کتاب پادری
فنڈرکی ضروریات کوپوراکرنے کے لیے لکھی تھی۔
مولاناکیرانوی اورمولانامونگیری نے مشزیوں
اورمستشرقین کے اتحاد عمل کامقابلہ کیا اوربڑی ہمت واستقلال سے
بہت سے فتنوں کاسدباب کیا، مولانا کیرانوی کی کتابیں
ازالة الاوہام،ازالة الشکوک،احسن الحدیث، اظہارالحق فرانسیسی،
انگریزی اورترکی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔
مولانا مونگیری کی کتابوں میں پیغام محمدی،
ساطع البرہان، برہان قاطعہ وغیرہ نے مشزیوں کی سازش کو ناکام
بنایا۔“(۲۳)
سرجادَوناتھ
سرکار کاجھوٹ:
فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے میں
ہندوستانی موٴرخ سرجادو ناتھ سرکار بھی انگریز موٴرخوں
کی صف میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔انہوں نے اورنگ
زیب کے نام سے ۵/جلدوں میں
کتاب لکھ کر بڑانام کمایا۔اجہاں انہوں نے ایک طرف اورنگ زیب
کے حالات، افکار،ملکی نظم و نسق،علم اور علماء پروری اور کارناموں کو
بڑے دل کش انداز میں بیان کیا ہے وہیں بعض جگہوں پر
اسلام، مسلمان اور اورنگ زیب کے عادات وخصائل پر جارحانہ حملے بھی کیے
ہیں۔اس نے اپنی کتاب کی جلد سوم کا ایک پورا باب
”اسلامک اسٹیٹ چرچ“کو اس بحث کے لیے وقف کردیا ہے کہ اسلام ایک
وحشیانہ مذہب ہے،جواپنے متبعین کو یہ تعلیم دیتا ہے
کہ لوٹ ماراور خوں ریزی کو مذہبی فرض سمجھو،یہ دنیا
کے امن کا دشمن ہے اور اس کی رو سے رواداری ناجائز ہے،حکومت مغلیہ
مکمل قزاقی تھی،مسلمانوں کی حکومت میں غیر مسلم
ابھر نہیں سکتے تھے،اورنگ زیب کی عدم رواداری کا ذمہ دار
اسلام تھا ،کیوں کہ وہ شجر اسلام کا ایک پھل تھا،جب درخت ہی
کڑوا ہے تو پھل لامحالہ کڑوا ہوگا۔(۲۴)
جیساکہ اس کتاب کی زہر افشانی
کے متعلق ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد لکھتے ہیں:
”دوسری کتاب مشہور تاریخ داں
جادو سرکار (سرجادو ناتھ سرکار)کی لکھی ہوئی ہندی اور
انگریزی زبانوں میں موجود ہیں،ویسے سر کا خطاب انگریزوں
نے زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کو دیا ،جنہوں نے انگریزوں
کے خیالات و بہبودی کا خیر مقدم دل کھول کر کیا ۔جادوناتھ
سرکار کی کتاب پڑھنے پر ہمیں بڑی دل چسپ باتیں دیکھنے
کو ملتی ہیں۔وہ یہ ہیں کہ سرکا ر صاحب کوئی ایسا
قدم اٹھانے سے بعض نہیں آتے ہیں،محض یہ ثابت کرنے کے لیے
کہ اورنگ زیب مغلیہ عہد کا بدترین بادشاہ تھا۔جب کہ ہمیں
انہیں کی کتاب میں اورنگ زیب سے متعلق ایسی
باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن پرغور کرنے سے ہم آسانی
سے اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ وہ اتنا کٹر،ظالم اور متعصب نہیں
تھاجتنا بتایا گیا ہے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے
اگر ہم سرکار صاحب کی کتاب میں شائع اورنگ زیب کے فرمانوں کا
مطالعہ کریں تو بات کافی حد تک سمجھ میں آسکتی ہے۔“(۲۵)
دیگر
موٴرخین کا مثبت اور منفی نقطہ نظر:
ان کے علاوہ ایشوری پرساد ،سری
رام شرما،آشروادی لال وغیرہ نے مغل بادشاہوں کی مذہبی پالیسی
اور میڈول انڈین کلچر کے نام سے عہدوسطیٰ کے بادشاہوں کی
تاریخ لکھی،ان میں بھی کہیں کم اور کہیں زیادہ
بیشتر حکمرانوں کی سیاسی ومذہبی پالیسی
کوتنقیدی انداز میں موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اسی
کے ضمن میں پورے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ
کہتے ہوئے کہ اسلام کو پھیلانے کے لیے جبرو تشدد کی پالیسی
اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۲۶)
اس کے برعکس ڈاکٹر ستیش چندرکی
کتاب” مغل دربار کی گروہ بندیاں اور ان کی سیاست“ محمد
اطہر علی کی ”اورنگ زیب کے عہد میں مغل امراء“ ، ”تاریخ
شاہ جہاں“ڈاکٹربنارسی پرشاد سکسینہ کی اوررومیلاتھاپر کی
کتاب کافی حد تک حقائق پر مبنی معلوم ہوتی ہیں ،جن میں
سلاطین ہند کی ہندو نوازیت اور دوسرے اہم گوشوں پر منصفانہ مواد
جمع کرکے ان متعصب موٴرخوں کا بھانڈا پھوڑاگیا ہے۔
اس قسم کازہریلا لٹریچر عوام
کے سامنے آیا تو بلا تفریق مذہب وملت کچھ سیدھے سادے لوگ بھی
ان سلاطین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔ان
کے اندر بھی غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔یہ سلسلہ ہنوز
جاری ہے۔آج بھی تاریخ کے بعض طالب علموں کے ذہنوں سے یہ
غلط تأثر زائل نہ ہوسکا ہے ۔ان میں سے بھی کچھ طالب علم تحقیق
وتخریج کے میدان سے گزرتے ہیں تو انہیں اصل صورت حال کا
اندازہ ضرور ہوجا تا ہے،پھر بھی شک اور تعجب کا خاور بند نہیں ہوتا۔ان
کتابوں میں بالخصوص الیٹ کی تاریخ نے عوام کے ذہن میں
ایسا تأثر پیدا کیا ہے کہ آج بھی جب اس کے خلاف کوئی
بات کہی جاتی ہے تو وہ شک آمیز اور تعجب سے سنی جاتی
ہے۔
معترضین
کے اعتراضات کی کمزوری خودان کی اوردوسرے ہندوموٴرخین
کی زبانی:
اس مختصر حقیقت پسندی کے علاوہ
یہاں پر اوردوسرے منصفانہ بیانات خود معترضین اسلام اور دوسرے
ہندوں موٴرخوں کی تحریر کی روشنی میں تحریرکیے
جاتے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر ان فرماں رواوٴں
کا رویہ اپنی رعایا کے ساتھ ایک ہی وقت میں
متضاد کیوں کر ہوسکتا ہے۔یاتو انہوں نے ہندوستان میں ظلم
وبربریت کی روش اختیار کی ہوگی ۔ یا
پھر انسانی ہمدردی اور رواداری کے اصولوں کو اپنا یا ہوگا۔لہٰذا
ان بیانات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان بادشاہوں کے متعلق بیشتر
موٴرخوں نے تعصب سے کام لے کر پوری تاریخ کو مشکوک بنادیا
ہے۔چنانچہ جس اورنگ زیب کو سرجادوناتھ سرکار نے شجراسلام کا ایک
کڑواپھل کہا ہے اس کی دوسری رائے اورنگ زیب کے متعلق یہ
بھی ہے:
”جسمانی ہمت اورتمکنت کے علاوہ اس نے
اوائل زندگی ہی سے بادشاہت کی مشقتوں اور خطروں کو اپنا شیوہ
بنالیاتھااوراس عظیم الشان عہدہ کے لیے احترام ذات اورضبط نفس
سے اپنے کوتیار کرلیا۔ بادشاہوں کے لڑکوں سے بالکل مختلف اورنگ
زیب ایک وسیع النظر اور سلیم الفطرت عالم تھااور زندگی
کی آخری سانس تک کتابوں سے محبت کرتا رہا۔اگر ہم قرآن شریف
کے ان متعدد نسخوں کو نظر انداز بھی کردیں جن کو اس نے اپنے ہاتھوں سے
ایک عابد کی سرگرم ریاضت کے ساتھ لکھاتو بھی ہم اس
کوفراموش نہیں کرسکتے کہ وہ ایک مشغول حکمراں ہونے کے باوجود اپنی
قلیل فرصت کو عربی کی فقہی اور مذہبی کتابوں کے
مطالعہ میں شوق سے گزارتااورپرانے اورنادر مخطوطات مثلانہایہ،احیاء
العلوم اوردیوان صائب کو کتابوں کے ایک کاہل عاشق کی ہوس سے
ڈھونڈتا۔اس کے کثرت رقعات،اس کی فارسی شاعری اور عربی
ادب پر قدرت کی دلیل ہے،کیوں کہ وہ ہمیشہ اپنے خط کو
مناسب اشعارواقتباسات سے مزین کرتا ہے۔عربی اور فارسی کے
علاوہ ترکی اور ہندی بھی آزادی کے ساتھ بول سکتا تھا۔یہ
اسی کی جودت طبع اور سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس
ہندوستان میں مسلمانوں کے قانون کا سب سے بڑاخلاصہ فتاویٰ عالم
گیری ہے جو نہایت مناسب طورپر اسی کے ساتھ منسوب ہے اور
جس نے بعد کے عہد میں اسلامی نظام عدل کو واضح طور پر آسان کردیا۔“(۲۷)
یہی موٴرخ محمد بن قاسم
کی فتوحات اور ان کی سیاسی بصیرت کی تعریف
کرتے ہوے لکھتا ہے:
”شروع کے عرب فاتحوں ،خصوصا سندھ کے فاتحوں
نے یہ عقلمندانہ اور مفید حکمت عملی اختیار کررکھی
تھی کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور مذہبی مراسم کو
مطلق نہ چھیڑتے ۔جب وہ کسی شہر پر قبضہ کر لیتے تووہاں غیر
مسلم آبادی کو اسلام قبول کرنے کو کہتے،اگر وہ قبول کرلیتے توان کو وہی
حقوق حاصل ہوجاتے جو فاتحوں کے ہوتے،ورنہ پھر ان کو جزیہ اداکرنا پڑتا،جس کے
بعد ان کو اپنے مذہب کے مراسم اداکرنے کی اجازت ہوتی۔“ (۲۸)
سرجادوناتھ مجموعی طور پر تمام مغل
حکمرانوں کی پالیسی اوران کے انتظام مملکت کی تعریف
ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”مغل ایمپائر کے سبھی صوبوں پر
با لکل ایک ہی طرح انتظامی مشنری کے ذریعہ ٹھیک
ایک ہی طرح کے ضابطوں اور سرکاری خطابوں کے ساتھ حکومت ہوتی
تھی۔ فارسی واحد زبان تھی جو سرکاری ریکاڈس،
فرمان، اسناد، زمینوں کے عطیات،حمل ونقل کے اجازت ناموں ،مراسلات اور
رسیدوں کے اجرامیں استعمال ہوتی تھی۔صرف ٹکسال
شہروں کے ناموں کے فرق کے ساتھ ایک ہی نام اور نوعیت کے اور
کھرے پن میں ایک ہی طرح کے اسکولوں کا حامل،ایک ہی
طرح کا مالیاتی نظام سلطنت بھر میں رائج تھا۔عہدہ داروں
اورفوجیوں کو برابر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں تبدیل کیا
جاتا تھا۔اس طرح ایک صوبہ کا باشندہ اپنے کو کسی دوسرے صوبے میں
تقریبا گھر ہی کی طرح مطمئن محسوس کرتا تھا۔تجاراورسیاح
بڑی آسانی سے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک صوبے سے دوسرے
صوبے میں آتے جاتے رہتے تھے اور سبھی اس ملک کی شاہی (سیاسی)وحدت
کو خوب سمجھتے تھے۔“ (۲۹)
کیمبرج ہسٹری کے مصنف
نے اپنی دوٹوک رائے اس انداز میں پیش کی ہے :
”مسلم موٴرخین نے کسی
بغاوت کو فرو کرنے یا کسی قلعہ ،شہر یاگاوٴں پر قبضہ کرنے
میں انہیں جلانے اور پورے ضلع کو برباد کردینے کا واقعہ اس رجزیہ
انداز میں کیا ہے کہ اگر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتا کہ واقعہ اس
طرح ہو ہی نہیں سکتا تو ہم مغالطہ میں پڑجاتے اور یقین
کرنے لگتے کہ شمالی ہندوستان پر مسلمان کا ابتدائی غلبہ ایک ایسا
مقدس جہاد تھا جو بت پرستی کو ختم کرنے اور اسلام کی تبلیغ کے لیے
شروع کیا گیا تھا۔محمود اور اس کے بعد سبھی حکمرانوں نے
جب بھی ایسا کرنا چاہا اپنے حق میں موزوں سمجھا ۔ہندو جاگیر
داروں اور زمین داری کی اطاعت کو قبول کرلیا ،انہیں
اپنا منصب دار بنایا اور ان کے موروثی علاقوں کو ان کے قبضے میں
رہنے دیا۔“(۳۰)
الفسٹن جس کی تاریخ کا اس باب
میں ذکر ہواہے کہ اس نے ”پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو“ کی پالیسی
اپنائی تھی اور مسلمانوں کو ہندووٴں کااورہندووٴں کو
مسلمانوں کاحریف ٹھہراتھا اور پھر اپنے نظریات کو کتابی شکل دے
کر اسکو ل کے نصاب میں شامل کردیا۔مگر وہ بھی دانستہ یا
نادانستہ مسلمان حکمرانوں کے انصاف ،مواخات اور رواداری کا اعتراف کرتے ہوئے
نہیں چوک سکے۔چنانچہ موٴرخ مذکور ایک مقام پر لکھتا ہے:
”ان کی(مسلمانوں)حکومتوں میں
ہندووٴں کے مندروں اور دھرم شالاوٴں کی حفاظت کی جاتی
تھی۔بر ندابن، گوردھن اورمتھرا کے مندروں کو شاہی خزانے سے مدد
کی جاتی تھی۔متھرا ضلع کے گوردھن میں ہری دیویکا
مندر ہے جو ۱۵۰۰ء میں بنا۔احمد
شاہ کے ایک دسخطی فرمان سے معلوم ہوتا کہ بادشاہوں کی طرف سے
مندر کے خرچ کے لیے روپیہ ملتا تھا۔“(۳۱)
ڈاکٹر ایشوری پرساد سابق پروفیسر
الٰہ آباد یونیورسٹی محمود کی عسکری اورسیاسی
بصیرت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”تاریخ میں محمود کا مقام طے
کرنامشکل کام نہیں ،اپنے زمانے کے مسلمانوں کے سامنے وہ غازی اور دین
کا حمایتی تھا،جس نے مشرکوں کے ملک سے بت پرستی ختم کرنے کی
کوشش کی اور آج کے ہندووٴں کی نگاہ میں وہ ایک وحشی
اور ظالم حقیقی ہواتھا ،جس نے ان کی انتہائی مقدس عبادت
گاہوں کو برباد اوروحشیانہ طور پر ان کے مذہبی احساسات کو مجروح کیا،لیکن
ایک غیر جانب دار محقق جو اس زمانے کے خصوصی حالات کو دھیان
میں رکھے گا تو لازمی طور پر دوسرا فیصلہ دے گا۔محمود بلا
شبہ اپنے ساتھیوں کا ایک عظیم رہنما تھا،وہ اپنی عقل سے
کام کرنے والا معقول اور ایمان دارحکمراں ،ایک جری اورلائق سپاہی
،منصف مزاج ،ادب کا سرپرست اور دنیا کے سب سے بڑے بادشاہوں میں شمار کیے
جانے کے لائق تھا۔“(۳۲)
ہندووٴں
کے مذہبی مقامات کے لیے اوقاف سے متعلق سلاطین ہندکے فرامین:
سلاطین ہند نے غیر مسلموں کے
ساتھ جو رواداری برتی اور ان کے مذہبی مقامات کے سلسلے میں
جو مثبت رویہ اپنایا وہ کسی بھی طرح مشکوک نہیں ہے ۔اس
کے علاوہ مسلم فرماں رواؤں نے اپنی سلطنت میں غیر مذہب والوں کے
عبادت خانوں کے لیے بڑی تعداد میں اراضی وقف کردیے،
تاکہ اس کی آمدنی سے مذہبی مقامات کانظم ونسق اچھی طرح
انجام پاسکے۔ اورنگ زیب نے تو کچھ مندروں کے لیے گھی اور
تیل بھی مہیا کرایا، تاکہ شام ہوتے ہی ان جگہوں کو
روشن کیاجائے۔(۳۳) ایسے
فرامین کی تعدادبہت ہے جو ملک کے مختلف مقامات کے مندروں کے پروہت اور
ان کے اہل خاندان کے پاس آج بھی پائے جاتے ہیں۔ان میں سے
بہت سے فرامین کو بسمبر ناتھ پانڈے نے مختلف جگہوں سے حاصل کرکے اور بڑی
چھان بین کے بعداسے اپنی کتاب میں شائع کردیاہے۔(۳۴)اس سلسلے میں علامہ شبلی
نعمانی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔اسی
طرح کتاب ”تاریخ ہند عہدوسطی میں“ بھی ان فرامین
کوعہد بعہد بالترتیب جمع کیاگیاہے جو مندروں سے متعلق ہیں۔(۳۵) اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیور
سٹی کی لائبریری کے شعبہ مخطوطات اور خدا بخش اورینٹل
لائبریری پٹنہ میں کئی فراہین موجود ہیں۔ان
فرامین کے مطالعہ سے متعصب موٴرخوں کاتعصب واضح ہوجاتاہے اور ان
برادران وطن کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو مسلمان فرمارواؤں کو بدنام کرتے
اور انہیں ظالم وجابر کہنے میں ذرہ برابربھی عار محسوس نہیں
کرتے۔
اسلام
میں عبادت خانوں کے انہدام کی ممانعت:
شروع میں لکھا جاچکا ہے کہ قرآن نے کسی
قوم کے مذہبی مقامات پر بے وجہ حملہ کرنے کی سختی سے ممانعت کی
ہے اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اہل ایمان کواس کام سے روکاہے۔صحابہ
کرام اور بعد کے خلفاء نے بھی انہی اصولوں پر عمل کیا ۔
محض تعصب کی بناء پر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کومسمار کرنے کا
ثبوت نہیں ملتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ عبادت
گاہیں خلفائے اسلام کے حکم سے منہدم کی گئیں،مگر ان کے پیچھے
کسی نہ کسی اہم عوامل کار فرماتھے۔چنانچہ ہندوستان میں بھی
اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی
قباحت نہیں کہ سلاطین ہند گوکہ پوری طرح سیاسی
معاملات میں شریعت پر عمل نہیں کرتے تھے ،تاہم جب دو قوموں کے
درمیان تصادم وامتیازکا مسٴلہ آتاتواس سلسلے میں علماء
وفقہاسے رائے طلب ضرور کرتے تھے،وہاں سے جوجوابات ملتے ان پر بادشاہ عمل کرتا یانہ
بھی کرتا ۔اگر سیاسی معاملات میں علما ء کی
رائے سے حکومت کے کام میں خلل واقع ہوتا تو وہ اسے پس پشت ڈال دیتے
تھے، اس لیے یہ کہاجا سکتا ہے کہ اس باب میں سلاطین ہند
نے شرعی اصول پر عمل کیا،کیوں کہ ایسا نہ کرتے تو ملک میں
خلفشاری ہوتی اور خود بادشاہ کی دیانت داری نہ ہوتی،اور
وہ اتنے طویل عرصہ تک ہندوستان میں اس شاندار طریقے سے حکومت
کرنے میں ہرگزکامیاب نہ ہوتے۔
یہ بھی ایک بڑا طرفہ
تماشہ ہے کہ آج ملک میں برادران وطن تعصب کی بنا پر جس مسجد پر اپنا
قبضہ جمانا چاہتے ہیں یا اس کے منہدم کا منصوبہ تیار کرتے ہیں
تو بڑے زوروشور سے پہلے اس بات کی تشہیر کرتے ہیں کہ فلاں مقام
پر جو مسجد ہے پہلے وہاں پر مندر تھااور فلاں بھگوان کی مورتی تھی،
بادشاہوں نے اسے توڑ کر مسجد بنالیا اور دھیرے دھیرے یہ
مسئلہ اتنا طول پکڑتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوجاتے ہیں۔ جب
معاملہ عدالت میں پہونچتا ہے تو فیصلہ حقیقت کے بر عکس ہوتا ہے یا
پھر اسے طول دے کر معاملہ کو دبادیاجاتا ہے اور وہاں پہرے بٹھا دیے
جاتے ہیں۔ اس طرح مسجد مسلمانوں کے تصرف سے نکل جاتی ہے ۔حالاں
کہ فقہانے کسی مقام پر مسجد بنانے کے جو حدود وقیود متعین کیے
ہیں اس کی تفصیل یہاں بیان کردینا دلچسپی
سے خالی نہیں ۔ فقہائے اسلام نے صراحت کی ہے کہ:
”اگر کوئی شخص مسجد بنائے جس میں
دوسرے کا حق ہو اور اس کی رضا مندی حاصل نہیں کی گئی
ہوتو اس حق والے کو اختیار ہے کہ ایسی مسجد کو باطل قرار دے اور
اپنا حق لے لے۔اس کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ایک زمین پر کسی
کو جواریا حق شفعہ حاصل ہے تو اس پر مسجد نہیں بنائی جاسکتی
۔اسی طرح ایک شخص بیمار ہے یا اس کی خواہش ہے
کہ وہ اپنا گھر بار مسجد میں تبدیل کردے یااس نے مرتے وقت اس کی
وصیت بھی کر دی ،مگر اس کے جائز ورثاء وصیت کو تسلیم
نہ کریں تو اس کی وصیت جائز نہیں سمجھی جائے گی
۔ اسی طرح بیع فاسد سے خریدی ہوئی زمین
پر مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ناجائزطریقے سے حاصل کی
ہوئی زمین پر بھی مسجد بنانادرست نہیں ہے۔
ناجائزحصول کی جو بھی شکل ہو،مثلاًکسی کا گھر زبردستی کچھ
لوگ حاصل کرکے وہاں مسجد یاجامع مسجدبنالیں تو ایسی مسجد
میں نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا۔اسی طرح کوئی راستہ ایسا
ہو کہ ایک مسجد کے بننے سے چلنے والوں کو نقصان یا تکلیف ہو تو
بلاشبہ ایسی مسجد بنانا درست نہیں۔مسجد کی تعمیر
کے لیے زمین کو حلال طریقے سے حاصل کیاجانااس کی
صحت کی شرط ہے اور اس حلال طریقہ کی وضاحت اس طرح کی جاتی
ہے کہ اس زمین پر کسی بھی شخص کاکوئی حق نہ ہو ۔“(۳۶)
انہدام
منادر کی حقیقت:
مسلمان حکمرانوں پر مندر شکنی کا
الزام لگایا جاتا ہے اور اس سے متعلق واقعات کو بیان کر نے میں
جس مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور ایک طویل عر صہ
سے خاص اسی مسئلہ کو اچھالنے کی جو مہم چھیڑ ی گئی
ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔کچھ
معاصر موٴرخین کے مبالغہ آمیزاور غیر محتاط بیانات
کی وجہ سے جو غلط تأثرات ابھرتے ہیں ان سے انکار نہیں کیا
جاسکتا ۔لیکن بعد کے دور میں برطانوی موٴرخین
اور خود ہندوستانی موٴرخین واہل قلم کے ایک طبقہ نے اس
زمانہ کے مزاج یادرباری موٴرخین کے انداز تحریر کو
دانستہ یا نادانستہ اس باب میں مسلم حکومتوں کے طرز عمل کی جو
ترجمانی کی ہے ،یا اس سے متعلق واقعات کو جس طرح بڑھا چڑھاکر پیش
کیا ہے وہ نہ صرف علمی بددیانتی اور تاریخ کو مسخ
کرنے کی بد ترین مثالیں ہیں بلکہ ملک میں سماجی
تعلقات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی بہت خطرناک ثابت
ہورہے ہیں ۔ایسے موٴرخین کے بیانات کو پڑھ کر
کوئی نتیجہ اخذ کرے توغلط نہ ہوگا کہ یہی اس زمانہ کی
حکومت کا یک نکاتی پروگرام تھا۔جب کہ صحیح بات یہ
ہے کہ اگر ان منادر کو منہدم نہ کیا جاتا تو ملک میں مزید بے حیائی
اور بدامنی وخلفشاری پھیلنے کا اندیشہ تھا۔کیوں
کہ اس عہد میں ایسے کئی مندر تھے جو بے حیائی کا
اڈہ بن گئے تھے اور مفسد لوگ یہاں جمع ہوکر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے
تھے۔جیساکہ ڈاکٹر ایشورٹوپاکے اس اظہار میں صداقت نظر آتی
ہے:
”اسلامی اصولوں کے نقطہ نظر سے غیر
مسلم ذمی کو یہ اختیار حاصل نہ تھا کہ وہ نئے مندر نو آباد
مسلمانی علاقوں میں تعمیرکرتے۔ فیروزشاہ نے تغلق
پور،صالح پوراور کوہانہ نئے شہر آباد کیے تھے ،یہاں ہندووٴں نے
مندر بنائے ۔ یہ مندر فیروز شاہ کے حکم سے توڑے گئے۔ان
مندر وں کے متعلق فتوحات فیروزشاہی میں تفصیلی
حالات ملتے ہیں ،اس میں لکھا ہے کہ ہندواور مسلمان تیوہاروں کے
موقعہ پر جو ان مندروں کے سلسلے میں ہواکرتے تھے ، جاتے تھے اور عورتوں کابھی
کثرت سے ان جگہوں میں آناجانا ہوتا تھا۔مرداور عورت کے ملنے جلنے کی
وجہ سے پبلک میں عام رسوائی کے چرچے ہواکرتے تھے اور بد اخلاقی
پھیلی جاتی تھی۔یہ مندر دراصل عقیدت
اور مذہبیت کے گھر نہ بن سکے بلکہ شیطان کا وہاں راج تھا۔فیروزشاہ
نے ایک طرف اسلامی قانون کے تحت اور دوسرے پبلک کی بھلائی
کے پیش نظر ان مندروں کوتوڑا۔فیروزشاہ نے عام طور سے بحیثیت
سرکاری پالیسی کے مندرتوڑے۔“(۳۷)
اس طرح کے واقعات دوسرے عہد میں بھی
ہوئے جس کے خلاف بادشاہ کوسخت کاروائی کرنی پڑی۔ پروفیسر
خلیق احمد نظامی کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ :جنگ کے دوران
عبادت گاہوں کی بربادی ایک عام بات تھی ۔ لیکن
جب صلح کی صورت پیدا ہوجاتی تو ان عبادت گاہوں کی تخریب
سے ہاتھ روک لیا جاتا۔(۳۸)
سلطان سکندر لودھی بھی مذہبی
معاملات میں سخت واقع ہوا ہے،مگر اس نے تعصب سے کام نہیں لیا۔اگر
اس نے کسی قدر غیرمسلموں کے ساتھ سخت رویہ اپنایا تو اس
کے عوامل پر بھی غور کرناچاہیے۔اس عہد میں ہندووٴں
کی بعض ایسی تبلیغی جماعتیں سرگرم ہو گئی
تھیں جن کا مقصد مسلمانوں کو مرتد بنانا تھا۔(۳۹) دوسری طرف یہی بادشاہ یہ بھی
چاہتا تھاکہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے علوم کو سیکھیں
تاکہ اس ایک دوسرے کو قریب سے سمجھ سکیں۔(۴۰) اس نے اگر تعصب سے کام لیا
ہوتا تو کرو کیشتر کے کنڈ کو تباہ کردیتا ،مگر مولانا عبداللہ اجودھنی
نے انہیں اس کام سے روکا تو وہ آگے کوئی اقدام نہ کرسکا۔(۴۱)
جن علاقوں کو مسلمانوں نے آباد کیا
اور وہاں ہندو پہلے سے موجودنہ ہوں اور بعد میں آکر بسے ہوں توان علاقوں میں
غیر مسلم سلطان وقت کی اجازت کے بغیر اپنے لیے کوئی
عبادت خانہ تعمیر کرتاہے تو بادشاہ کو اختیار ہے کہ وہ اسے چاہے تو
رہنے دے یامنہدم کردے۔(۴۲)
حضرت مجددالف ثانی نے جہاں گیرسے
یہ وعدہ وعید کرایا تھا کہ وہ ہندووٴں کے زور کو توڑے اور
اس کی تذلیل و تحقیر کرے، جس کی وجہ سے بادشاہ نے کچھ سخت
اقدام کیا ،اس سے مجدد کی مراد ہرگز یہ نہ تھی کہ عام
حالات میں ایسا کیاجائے، بلکہ کفار کے زورکو توڑنے کے لیے
ایسا کرنے کو کہاتھا،کیوں کہ کفار دن بدن نڈر ہورہے تھے۔(۴۳) بعض وجوہ کے بناپر جہاں گیر
نے نئے مندر کی تعمیرپر پابندی لگادی تھی ،اس لیے
شاہ جہاں نے اپنے زمانہ میں نوتعمیر شدہ مندروں کومسمارکروادیاتھا
۔اورنگ زیب نے بھی کئی مندرگروائے ۔مسلمان حکمرانوں
نے ہنگامی حالات میں مندروں کومسمار کیاتوانہوں نے اپنی
مسجدوں کوبھی نہیں چھوڑااور درگاہوں کو بھی تہس نہس کیا۔اگر
وہ تعصب کو جگہ دیتے تو ملک میں ایک بھی مندر بچانہ رہتا۔
محمد بن قاسم نے جس فراخ دلی سے
مندروں کی تعمیراور اسکی مرمت کی اجازت دی، اورعطیات
بھی عطاکیے،وہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے
اسلام کی اس اصول پر عمل کیا کہ کسی کے مذہبی مقامات کو
محض نفرت اور عناد کی وجہ سے ہرگز ہرگز مسمار نہ کیاجائے۔البتہ
جو مقامات سازش اور گمراہی کے اڈے ہوں اسے برباد کردیا جائے۔
جب
دونوں قوموں کے ذریعہ انہدام معابدکے واقعات کا موازنہ کرتے ہیں تو ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں نے ہی جو ذمی کی حیثیت
سے مسلمانوں کی عمل داری میں رہتے ہیں،بیشتر مساجد
کو مسمار کیا ہے ۔چنانچہ ایک انگریز موٴرخ کا تبصرہ
بجا معلوم ہوتا ہے :
”عرب فاتح جو رویہ ماتحت قوموں کے ساتھ
برتتے تھے ہندوستان میں آکر بالکل پلٹ گیا ،ہندووٴں کے مندروں
کو جیوں کاتیوں چھوڑ دیا گیا اور بت پرستی پر کوئی
پابندی نہیں لگائی گئی۔ہندوستان کی لڑائی
دھرم یدھ یاجہاد نہیں رہ گئی کیوں کہ مذہب بدلنے
کاوہاں سوال ہی نہیں اٹھایا گیا ۔سندھ میں
اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ بتوں کی بھی پوجا کی جاتی
تھی اور اس طرح باوجود اسلامی حکومت کے بھارت ایک بت پرست ملک
بنارہ گیا۔“ (۴۴)
جزیہ
کی شرعی حیثیت اور اس کانفاذہندوستانی تناظرمیں:
جب کسی نئے علاقہ کوفتح کرکے مسلمان
اس پر اقتدار حاصل کرلیں تو مفتوحین میں سے جو لوگ مسلمانوں کی
حکومت تسلیم کرکے اس ملک میں رہنا چاہیں اور عہدکریں کہ
وہ مملکت کے خلاف بغاوت اور سازش میں ملوث نہ ہوں گے تو اب حکومت کے لیے
ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ان مفتوحین کو ذمی کی حیثیت
سے تسلیم کرکے اس کے جان ومال اور عزت وآبرو کی بالکل اسی طرح
حفاظت کرے جس طرح وہ مسلمان رعایاکی حفاظت کے لیے ہرممکن کوشش
کرتاہے ۔(۴۵) اب اگر کوئی بلاوجہ اس کو قتل
کرتاہے تواس کے عوض اسے بھی قتل کیاجائے گا ،اور اگر مقتول کے ورثاء
اپنی مرضی سے قاتل کو معاف کردیں تو قاتل بری ہوجائے گا ۔البتہ
ایسے لوگوں سے مسلمان حکمراں کچھ سالانہ ٹیکس(جزیہ)لینے
کے مجازہوں گے ۔ یہ ٹیکس انہی لوگوں سے وصول کی
جائے گی جو فوجی خدمت کے قابل ہوں،عورت،بچے،بوڑھے،معذوراور مذہبی
خدام لونڈی اورغلام اس سے مستثنیٰ قرار دیے جائیں
گے۔ (۴۶) جزیہ کی ادائیگی
کے بعد اہل ذمہ سے نہ صرف فوجی خدمات ساقط ہوجائیں گے،بلکہ وہ اپنے
مذہبی ،سماجی اورعائلی معاملات میں بھی اسلامی
قانون کے پابند نہ ہوں گے ۔(۴۷) البتہ
وہ مسلم علاقوں میں کوئی نئی مذہبی عبادت گاہ تعمیر
نہیں کرسکتے ۔پرانی عبادت گاہوں کی مرمت اور خستہ مذہبی
مقامات کی دوبارہ تعمیر کرسکتے ہیں اور جہاں صرف غیر مسلم
ہی رہتے ہوں تو پھر نئے منادر بھی اپنی مرضی سے قائم کرلیں
تو مضائقہ نہیں۔(۴۸) اسی
طرح وہ مسلم علاقوں میں رہ کر مذہب سے متعلق کوئی ایسا کام نہیں
کرسکتے جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہو اور اس کے مذہبی
معتقدات کو ٹھیس پہونچتی ہو۔(۴۹) اگر وہ اپنی مرضی سے اپنے نزاعی
معاملات کے لیے شرعی عدالت سے رجوع کریں تو فیصلہ شرع کے
مطابق کیاجائیگا۔(۵۰) کسی
معاہد پر بھی شرعی نقطہ نظر سے کوئی ظلم وزیادتی نہیں
کی جائے گی اور نہ مسلمان کسی اہم سبب کے معاہدہ کو توڑسکتے ہیں۔
جب تک کہ فریق ثانی کی رضامندی حاصل نہ ہوجائے ۔معاہدہ
خواہ اہل کتاب سے کیا جائے یامشرکوں سے دونوں صورتوں میں
مسلمانوں پر اس کی پابندی اور حفاظت یکساں لازمی ہے۔(۵۱)
ہندوستانی تناظر میں یہ
مسلہ سب سے پہلے محمد بن قاسم کے زمانہ میں پیش آیا، جب وہ سندھ
میں اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈال رہے تھے ،کہ مفتوح قوم
کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کیاجائے اور شریعت کااس بارے میں کیاحکم
ہے،کیوں کہ یہاں کے باشندے شبہ اہل کتاب تھے ۔ ڈاکٹر ظفرالاسلام
اصلاحی لکھتے ہیں:
”غیرمسلموں کے شرعی حیثیت
کے بارے میں یہ مسٴلہ سب سے پہلے محمد بن قاسم کے زمانہ میں
پیش آیا۔وہ اس وقت سندھ میں عربوں کی حکومت قائم
کررہے تھے ۔تاریخ سندھ کے ایک مستند ماخذچچ نامہ کے بیان
کے مطابق محمد بن قاسم نے سندھ کے ان مفتوحین(جن میں برہمن ،بودھ
دونوں شامل تھے)کو ذمی کی حیثیت سے تسلیم کیا
اور ان پر جزیہ عائد کیا ،جنہوں نے اپنے قدیم مذہب پر قائم رہتے
ہوئے مسلم حکومت کے زیر نگیں رہنے پر رضامندی ظاہر کی ۔اسی
حیثیت سے انہیں مذہبی آزادی ملی اور قدیم
منادر کی مرمت وآباد کاری کی اجازت دی گئی ۔گر
چہ چچ نامہ یاکسی اور ماخذ میں اس کی صراحت نہیں
ملتی ،لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ محمد بن قاسم
نے والی عراق اور علماء سے صلاح ومشورہ کے بعدہی ہندووٴں کے
سلسلہ میں فیصلہ کیاہوگا ۔جیسا کہ اس بات کے واضح
ثبوت ہیں کہ انہیں قدیم معابد کی مرمت کی اجازت دینے
اور بعض دوسرے مسائل میں محمدبن قاسم نے حجاج بن یوسف سے مشورہ اور
علماء سے استفسار کیاتھا ۔یہاں یہ وضاحت دلچسپی سے
خالی نہ ہوگی کہ مشہور عرب موٴرخ بلاذری نے صاف طور پر یہ
ذکر کیاہے کہ سندھ کی فتح کی مہم کے دوران اور بعدکے زمانوں میں
بھی حجاج بن یوسف سے محمد بن قاسم کی مراسلت برابر جاری
رہی اور یہ صراحت بھی ہے کہ ہر تیسرے روزخطوط کی
آمد ورفت ہوتی رہتی تھی۔“(۵۲)
سندھ کے غیر مسلموں کی جوشرعی
حیثیت متعین کی گئی،اسی قانون پر بعد کے سلاطین
نے بھی عمل کیا،اور ہندووٴں سے جزیہ وصول کیاجاتارہا
۔البتہ اکبر کے زمانہ کیشروع میں تو اس پر عمل رہامگر بعدمیں
اس نے ہندووٴں کو اس سے بری کردیا۔عہد جہاں گیر اور
شاہ جہاں میں بھی جزیہ معاف رہا۔البتہ اورنگ زیب نے
اپنی حکومت کے بائیس سال بعد اس قانون کو نافذ کردیا اور اپنے
انتقال سے کچھ عرصہ قبل اسے موقوف کردیا۔اسلام کے اصول جزیہ پر
جولوگ اعتراض کرتے ہیں،اس کاجواب دیتے ہوئے ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد
لکھتے ہیں:
”ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تقریباًسوسال
تک رہی اور زیادہ تر زمانوں میں جزیہ وصول کیاگیا،اس
کے باوجود عہد قدیم سے چلے آئے مذہبی معتقدات اور مذہبی مقامات
کی اپنی حیثیت بر قراررہی۔اس بات کا کوئی
ثبوت نہیں کہ جزیہ کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مذہب کی
تبدیلی کا عمل ہواہو ۔ اگر ایسا ہواہوتاتو اسلام کے شیدائی
اس کابیان بڑھا چڑھا کر کرنے سے بعض نہ رہتے۔“(۵۳)
غیر مسلموں سے سربراہ مملکت سالانہ
جزیہ کی ایک قلیل مقدار ہی وصول کرتا تھا ،اس کے
برعکس مسلمانوں کو صدقہ،زکوٰة اور عشر اداکرنا پڑتاتھا،جوجزیہ سے کہیں
زیادہ ہوجاتاتھا۔ دراصل جزیہ ایک طرح کابدل تھا جس کے
اداکرنے کے بعد ذمی تمام پابندیوں سے آزاد ہوجاتے تھے اور ساتھ ہی
اس کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری سربراہ مملکت پر
عائد ہوجاتی تھی۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں پر اور کئی
اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ۔ایک تو انہیں
جنگ میں حصہ لینا پڑتا، تو دوسری طرف انہیں سرحد کی
حفاظت کرنی پڑتی تھی۔آج بھی حکومت عوام سے سالانہ ایک
متعین رقم وصول کرتی ہے ،ملک میں رہنے والی ہر قوم سے ۔تو
اس کی کیاتوضیح کی جائے گی۔ دراصل اس قسم کی
رقم حکومت وصول نہ کرے تو پھر ملک کا نظم ونسق چلانا مشکل ہوجائے گا۔
جزیہ کی جو مقدار متعین
کی گئی ہے اور جس کی تفصیل کتابوں ملتی ہے اسی
کے مطابق محمد بن قاسم نے ہندو رعایا سے وصول کیا اوراسی اصول
پر اورنگ زیب تک عمل ہوتارہا ۔سب سے بڑی بات یہ کہ یہ
اسلام کی محدثات نہیں ہے ۔اسلام سے قبل بھی اس طرح کی
رقم شاہان وقت اپنی رعایا سے وصول کرتے تھے ۔اگر یہ معمولی
سا ٹیکس ادا کرکے لوگ تبدیلی مذہب کا شکار ہوجاتے ہیں تو
وہ اس کے مذہب کی کمی ہے نہ کہ شاہان اسلام کا جبر۔ چنانچہ
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
”اب ہم پوچھتے ہیں کہ ایسا
ہلکا ٹیکس جس کی تعداد اس قدر قلیل تھی ،جس کے اداکرنے سے
فوجی کو پر خطر خدمت سے نجات مل جاتی تھی ،جس کی بنیاد
نوشیرواں عادل نے ڈالی تھی ۔کیا ایسی
ناگوار چیز ہو سکتی ہے جیسی کہ اہل یورپ نے خیال
کی ہے ۔کیا دنیا میں ایک شخص نے بھی اس
سے بچنے کے لیے اپنا مذہب چھوڑا ہوگا ؟کیا کسی نے اپنے مذہب کو
ایسے ہلکے ٹیکس سے بھی کم قیمت سمجھاہوگا؟اگر کسی
نے ایسا سمجھاتو ہم کو اس کے مذہب کے ضائع ہونے کا رنج بھی نہ کرنا
چاہیے۔جو لوگ جزیہ اداکرتے تھے ، ان کو اسلام نے جس قدر حقوق دیے،کون
حکومت اس سے زیادہ دے سکتی ہے۔“(۵۴)
نفاذجزیہ کے سلسلہ میں سب سے زیادہ
محمدبن قاسم ،علاء الدین خلجی ،سلطان فیروز شاہ تغلق اور اورنگ
زیب عالم گیر کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہ ان لوگوں
نے زبردستی غیر مسلموں پر جزیہ کا قانون نافذکیا۔
جس سے ہندووٴں کی مالی حالت کمزورہوگئی اور مسلمان بحیثیت
مال کے مستحکم ہوگئے ۔یہ سب برادران وطن کی غلط فہمی ہے یاہٹ
دھرمی ،کہ وہ جزیہ کی اصل غرض وغایت کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔
مولاناآزادکی رائے بالکل درست ہے:
”اورنگ زیب نے باتفاق جمیع
علماء حنفیہ ہندہندووٴں پر جزیہ کے احکام جاری کیے
تھے ،نادانی وبے خبری سے ہندووٴں نے سمجھاکہ یہ ان کی
تذلیل وتحقیر ہے ،حالاں کہ اگر اس وقت علماء محققین ہوتے اور وہ
جزیہ کی غرض و غایت اوراہل ذمہ کے حقوق معتبرفی الشرع
کوکھول کر بیان کرتے تو ہندووٴں کومعلوم ہوجاتا کہ ان کی تذلیل
نہیں بلکہ وہ بہترسے بہتر سلوک ہے جودنیا میں کوئی حاکم
قوم محکوم کے ساتھ کرسکتی ہے“۔(۵۵)
حالاں کہ مسلم حکمرانوں کے عہد میں غیر
مسلموں کے درمیان یہ ٹیکس کبھی خلجان کا باعث نہ رہااور
نہ ان لوگوں نے اسے اپنے لیے بار سمجھا،بلکہ انہوں نے اسے بخوشی قبول
کیا،کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کے تعاون کے بغیر حکومت
کا کاروبار اچھی طرح سے چلایا نہیں جاسکتا۔جیسا کہ
سید صباح الدین عبدالرحمٰن کی مندرجہ ذیل تحریر
سے بھی اس کی وضاحت ہوتی ہے:
”اس زمانہ کے تمام راجہ اس کو اور ٹیکسوں
کی طرح ایک ٹیکس سمجھ کر ادا کردیا کرتے تھے ،اور کسی
حال میں وہ اپنے کو کمتر درجہ کا شہری تسلیم نہیں کرتے
تھے ۔حالاں کہ اب یہی بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹیکس
غیر مسلموں کو سیاسی ، اقتصادی ،مذہبی اور اخلاقی
حیثیت سے تابع بناکر گری ہوئی حالت میں رکھنے کے لیے
عائد کیا جاتا تھا ۔مگر جب ہاتھ میں تلوار موجود تھی تو ایساکرنے
کے لیے ٹیکس لگانے کی کیا ضرورت تھی اور ایسے
موٴرخ کی کوئی وقعت نہیں ہوگی جو یہ تسلیم
نہ کرے کہ ملک گیری کے سلسلہ میں مسلمانوں کی تلوارتو خوب
چمکی ،لیکن ملک داری میں ان کی تلوار ہمیشہ نیام
میں رہی۔وہ میدان جنگ میں خواہ کیسی ہی
خوں ریزی کرتے لیکن جنگ کے بعد معتدل روش اختیار کرلیتے۔کیوں
کہ ملک کی زراعت اور تجارت ہندووٴں کے ہاتھوں میں تھی۔اونچے
عہدے دار تو مسلمان ضرور تھے ،لیکن دوسرے تمام عہدے ہندووٴں کے ہاتھوں
ہی میں ہوتے تھے۔ کیوں کہ ان کی مدد کے بغیر
حکومت کا ڈھانچہ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا،اور اگر ان کے ساتھ روادارانہ سلوک
نہ کیا جاتا تو تھوڑی تعداد اور قلیل فوج کی مدد سے ہر
جگہ مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی تھی۔“(۵۶)
سلاطین ہندنے غیرمسلموں کی
نہ صرف طرح طرح سے حوصلہ افزائی کی، بلکہ بحیثیت ذمی
ہونے کے سلطنت کے اہم عہدے ان کے سپردکردیے تھے۔ اواقف ہندو کہتے ہیں
کہ یہ فیاضی صرف اکبر کے ساتھ مخصوص تھی۔بالکل غلط
ہے۔ جہاں گیر ، شاہ جہاں یہاں تک کہ اورنگ زیب کے عہد میں
بھی ہندو بڑے اہم عہدے پر فائزتھے ۔نہ ہزاری،،ہفت ہزاری،
چارہزاری جیسے عہدے ان کوملے ہوئے تھے ،جوفوجی عہدہ تھا۔یعنی
ہر منصب کے تعداد کے اعتبارسے فوج ان کے زیر نگرانی حرکت کرتی
تھی۔ (۵۷)
عہد فیروز شاہی میں بھی
ہندو بہت معزز ہوگئے تھے ،خود فیروز شاہ تغلق اپنی حکومت کو ہر قسم کے
ضعف سے محفوظ رکھنے کے لیے ہندووٴں کو قریب کیا اور بعضے
وقت وہ ہندو جو گیوں اور بیراگیوں کو اپنے پاس بٹھاتا اور ان سے
علمی مذاکرہ کرتاتھا ۔خسرو خان نمک حرام اور خسروخانی ہندووٴں
نے اندر اندر اسلام دشمنی کاجومظاہرہ کیا اس پر بھی سلاطین
نے کوئی سخت نوٹس نہیں لیا۔ حدسے زیادہ بڑھی
ہندونوازی کاذکر انگریز موٴرخوں نے بھی کیاہے۔
پروفیسر گارڈبراؤن نے لکھاہے:
”رہا ہندو رعایا کے ساتھ برتاؤسوان
پر سختی وسخت گیری کیسی؟اس نے تو اکبر سے پہلے ہی
ایک طرف ستی کے رسم کو مسدود کرایا ۔ دوسری طرف
ہندوراجاؤں کو اعلیٰ جنگی مناصب اور دیگرقابل ہندووٴں
کواعلی ملکی خدمات پر فائزکرناشروع کردیا تھا۔ اس نے دولت
مند ہندووٴں کی دولت وثروت میں مطلق دست اندازی نہیں
کی۔برنی کازر فرضی پر سب سے بڑا اعتراض یہی
ہے کہ اس سے ہندووٴں کی دولت مندی وتونگری میں ترقی
ہوتی رہی، اس نے (محمد تغلق نے)قدیم وجدید ہندو ریاستوں
کو نیم خود مختاری کی حالت میں چھوڑے رکھا ۔ اس کے
طرز عمل کی دانش مندی سے وہ لوگ تو انکار کرہی نہیں سکتے
جو اکبر کے طرز حکومت کے مداح ہیں ۔“ (۵۸)
سلطان شہاب الدین غوری ،علاء
الدین خلجی اورجلال الدین خلجی کے زمانے میں ہندووٴں
نے جو عروج حاصل کیااس کی تفصیل پچھلے باب میں گزر چکی
ہے ۔لیکن یہاں پر شہاب الدین غوری کایہ واقعہ
دعوت ملاحظہ دے رہاہے کہ: وہ سلطنت کی ہوس میں غیر قوم کو زک
پہونچانا جرم عظیم سمجھتاتھا۔واقعہ یہ ہے کہ جب وہ انہلواڑہ کے
معرکے میں ناکام ہوا تو اسی دوران اس سے کسی نے کہا کہ انہلواڑہ
کا فلاں تاجر غزنین میں تجارت کرتاہے اور اس کی دس لاکھ کی
ملکیت کا سامان تجارت غزنین میں پہونچا ہواہے، اسے ضبط کرکے
خزانہ شاہی میں بھر لیں تاکہ شاہی شان و شوکت میں
اضافہ ہو۔اس کے جواب میں سلطان نے جو جملہ لکھااس سے اندازہ کیا
جاسکتاہے کہ مسلمان سلاطین کس طرح غیر قوم کے ساتھ ہمدردی
اوررواداری کا سلوک کرتے تھے:
”وسالہ ابہر کا یہ مال اگر نہر
والہ(انہل واڑہ)میں ہوتا اور وہاں اس پر قبضہ کیاجاتاتو ہمارے لیے
حلال ہوتا ، لیکن غزنین میں اس مال پر قبضہ کرنا ہمارے لیے
حرام ہے، کیوں کہ وہ میری پناہ میں ہے۔“(۵۹)
مسلم
حکمرانوں کے اقتدارکے کمزوری کے باوجوداسلام زیادہ پھیلا:
ہندوستان میں مسلمانوں کی
حکومت کے باوجود غیر مسلموں نے مسلمانوں پر مظالم زیادہ کیے اور
مسلمانوں کی عزت و عصمت پر ڈاکہ ڈالا اور ان کے مذہبی شعائرکے ساتھ
توہین آمیز معاملہ کیا۔اگر ان باتوں پر مسلمانوں نے بعض
ہندووٴں کے ساتھ سختی کامعاملہ کیا تواس پر طوفان کھڑاکرنا چہ
معنی دارد۔چوں کہ غیر مسلموں کی حیثیت
ہندوستان میں ذمی کی تھی ،اور اگر کوئی ذمی
اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک کرتا ہے تواسلام اس وقت حکم دیتاہے کہ
ان کی سخت گوش مالی کی جائے۔ مگرسلاطین ہند نے اپنے
اسلامی اصول وقوانین پر عمل نہ کرکے ان کے ساتھ بے جا رواداری
کامعاملہ کیا۔ان کے جرائم کو بعضے اوقات نظراندازکردیا اور انہیں
آزادی سے زندگی بسر کرنے پر مانع ومزاحم نہ ہوئے۔یہی
وجہ ہے کہ بہت سے ہندو وٴں نے اسلام قبول کیا۔اب اگر کوئی
معترض ہوتا ہے کہ اسلام جبر سے پھیلا،تو مسلمانوں کی حکومت ہندوستان
سے ختم ہوتے ہی وہ سارے کے سارے ہندوجنہوں نے جبراًاسلام قبول کیاتھااسلام
سے پھرجاتے اوراپنے سابق مذہب کو اختیار کرلیتے ۔مگر تاریخ
میں ایسے واقعات بہت کم ملیں گے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بہت
سے ہندوبیک وقت اسلام سے منحرف ہوگئے ہوں۔دوچار واقعات اس قسم کے ضرور
رونما ہوئے ۔ اس سے اسلام کی کمزوری یاجبر ہرگز ظاہر نہیں
ہوتا ۔دراصل یہ وہ لوگ تھے جوحب جاہ اور مالی منفعت کے لیے
اسلام قبول کرتے تھے اور اگر جبراًاسلام پھیلایاجاتا تو آگرہ، دہلی،
اودھ، بہار،دکن وغیرہ میں مسلمانوں کی تعداد ہرگز کم نہ ہوتی
،کیوں کہ یہ علاقے براہ راست مرکز سے تعلق رکھتے تھے ۔آٹھ سوبرس
کاعرصہ گزرجانے کے باوجودوہاں پندرہ فیصد سے زیادہ مسلمانوں کی
تعداد نہ بڑھی ۔اس کے بر خلاف جہاں مسلمانوں کا اقتدار زیادہ
مضبوط نہ تھا،ان علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد میں حیرت
انگیزطور پر اضافہ ہوا۔ سندھ،کشمیراور بنگال وغیرہ کو
مثال کے طور پرپیش کیاجاسکتاہے ۔ بنگال میں اشاعت اسلام
کے سلسلے میں آرنلڈ نے بڑی تفصیلی اور اہم بحث کی
ہے۔مگر یہاں پر ایک دوسرے ہندو موٴرخ کابیان قول فیصل
کادرجہ رکھتاہے:
”ظن غالب یہ ہے کہ ہندومت کی
پابندیوں نے بنگال کی نیچ ذاتوں کواس نئے مذہب کے قبول کرنے پر
آمادہ کردیا تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر
بارہویں صدی عیسوی تک بنگال پر پال خاندان کی حکومت
تھی جوبدھ کاپیروتھا۔اس کے زمانہ میں نیچ ذاتوں
کوبڑی آزادی حاصل تھی ۔جب سین خاندان کے لوگ جنوب کی
طرف بنگال میں داخل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ ہندومت اور اس کی تمام
معاشرتی پابندیاں بھی لے آئے ،جن سے نیچ ذاتوں کے جذبات
کو ہمیشہ ٹھیس لگتی تھی اور جب بارہویں صدی میں
اسلام آزادی اور مساوات کاڈنکا بجاتاہوا بنگال پہونچا تو عوام کی طبیعتیں
خود بخود اس کی طرف مائل ہوگئیں ۔لوگ جوق در جوق مسلمان ہوتے
چلے گئے۔ یہ ایک بڑاسبب ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے
سبب کی تلاش کی حاجت نہیں“۔(۶۰)
منصب
اور دولت کے لیے تبدیلیٴ مذہب کا عمل:
اسلام قبول کرنے والے صرف نچلی سطح کے لوگ
نہ تھے بلکہ اعلیٰ اور اونچی ذات کے لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ
کر حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہاں کون سی وجوہات کار فرماتھیں
۔یہ لوگ تو سماج کے ہر قیودسے آزادتھے ۔دولت تھی،عزت
تھی،اور حاکم تھے ۔ اس لیے ان کے ساتھ معاشرہ میں کسی
ظلم وزیادتی کاکوئی سوال ہی نہیں۔دراصل ہندووٴں
کاہر طبقہ اپنے اپنے خطوط پر تفریق ذات کے دیو مالائی بلا
کاشکارتھا۔ اس کے علاوہ جنگ کے موقع پر لشکروں کی گرفتاری کے
ساتھ روساء جنگ اور امراء بھی گرفتار ہوتے تھے ، چنانچہ سزاسے بچنے کے لیے
یہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہوجاتے ۔ایک دوسری وجہ یہ
تھی کہ جب ہندو مغلوب ہوتے تو ان کی حیثیت ذمی کی
ہوجاتی اور انہیں سال میں مخصوص رقم سلطنت کودینی
پڑتی تھی۔مگر یہ لوگ دولت سے اتنی محبت کرتے تھے کہ
وہ سب کچھ کرنے کوتیار ہوجاتے ،مذہب کو بھی داؤ پر لگادیتے۔
خوشی سے اپنی دولت کا کچھ حصہ ہرگز کسی کو دینابرداشت نہیں
کرتے تھے۔چنانچہ اپنی دولت کو بچانے کے لیے وہ اسلام قبول کرلیتے۔
پھر مسلمان ہونے کی صورت میں سلطنت کے اہم عہدے بھی حاصل کرلیتے
تھے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر آرنلڈ لکھتے ہیں :
”اکثر ہندو دنیوی منافع کے خیال
سے مسلمان ہونا گوارہ کیا،ہزارہا راجپوت اسی طرح مسلمان ہوگئے،جن کی
اولاد اب تک ملک کے دولت مندزمین داروں میں شمارہوتی ہیں۔ان
میں بجگوٹی راجپوتوں کا مسلمان خاندان سب سے زیادہ معزز ہے جو
ملک اودھ کے مسلمان تعلقہ دارکی فہرست میں اول درجہ رکھتاہے۔ایک
روایت کے موافق اس خاندان کے وارث اعلیٰ تلوک چند کو بابر
بادشاہ قید کرکے لے گیا اور تلوک چند نے قید سے رہائی
پانے کے لیے اسلام قبول کیا۔“(۶۱)
اس سے زیادہ وضاحت سے ڈاکٹر اوم
پرکاش پرساد نے اونچی ذات کے لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ بتائی
ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”اپریل۱۶۶۷ء میں سود خوری کے الزام میں
چار ہندو قانون گویوں کو عہدہ سے معزول کیاگیا ،سزا پانے کے ڈر
سے ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔چوکی گڑھ کاانچارج بننے کے لیے
بھوپ سنگھ نے اپنے بھائی مراری داس کو اسلام قبول کرلینے کی
صلاح دی ۔لیکن اس نے اپنے بھائی کے لالچ بھرے مشورہ کو
تسلیم نہیں کیا اور ہندو ہی رہا۔۱۶۸۱ء مین منوہر
پور کے ز مین دار دیوی چند نے اسلام قبول کیا تاکہ ۲۵۰/فوجیوں کے
بجائے ۴۰۰/کا منصب حاصل کرے۔چنانچہ
۱۵جنوری ۱۷۰۴ء کو اس نے اسلام قبول کیا ۔
راجہ اسلام خاں نے ہندو مذہب ترک کرکے اسلام قبول کیا تاکہ اپنے بہن کی
شادی اورنگ زیب کے بیٹے سے کرسکے ،لیکن یہ شادی
نہیں ہوسکی ۔ جاگیر حاصل کرنے کے لیے رام پور کے
شاہی منصب دارراؤگوپال سنگھ کے بیٹے رتن سنگھ نے اسلام قبول کیا
۔“(۶۲)
معلوم یہ ہوا کہ ہندووٴں کے
نزدیک اپنے دھرم کی کوئی حقیقت نہیں تھی اس لیے
وہ اپنی دولت کی حفاظت کے لیے اپنے دھرم کو بھی خیر
باد کہہ دیتے تھے ۔حالاں کہ مسلمان فاتحین نے انہیں اپنے
مذہب پرقائم رہنے اور ان پرعمل کرنے کی پوری آزادی دے رکھی
تھی کہ وہ جزیہ اداکرکے من مانی زندگی اختیارکریں
۔مگر ہندو اپنے مذہب کو بچانے اور اس پر قائم رہنے کی خاطر اپنی
دولت کا معمولی حصہ ادا کرنے سے پیچھے رہے ۔یہ ان کے مذہب
کی کمزوری تھی ،یااسلام کاقانون اس کے لیے مزاحم
بنا۔سچا مذہب وہی ہے جواپنے ماننے والوں کے ایمان ویقین
کو اس طرح مستحکم کردے کہ وہ سب کچھ تو کرسکتے ہیں مگر اپنے ایمان کا
سودا ہرگز نہیں کر سکتے ۔ آج دنیامیں بڑی بڑی
جنگیں ہورہی ہیں اورلوگ اسلام کو مٹانے کی ہرممکن کوشش
کررہے ہیں مگر اسلام کے شیدائی اپنے مذہب کو زندہ رکھنے کے لیے
دشمنان دین کاکھل کر بلکہ آگے بڑھ کر مقابلہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں
گے ۔
ہندوستان
میں اشاعت اسلام کے اسباب وعوامل:
ہندوستان میں اسلام کی آمدکے
وقت یہاں کے دوقدیم مذہب ہندومت اور بدھ مت کے درمیان کش مکش
جاری تھی۔جس میں بدھ ازم کودوبارہ عروج حاصل ہورہاتھا ۔ان
مذاہب کے رہنماسماجی تفریق کے ناسورکا مداوا پیش کرنے سے قاصر
رہے۔اگراس طرح کی برائے نام کوئی کوشش کی بھی تو اس
میں انہیں کوئی کامیابی نہ مل سکی۔اس
کش مکش کا اور سماجی تفریق کا عوام بالخصوص سماج کے پچھڑے طبقہ پر کافی
اثر پڑا ۔اسی درمیان اسلام اپنی صاف ستھری تعلیمات
لے کر ان کے سامنے کھڑاہوا،توعوام کونظرآیا کہ طمانینت قلب کے ساتھ
ساتھ اسلام نے جونظریہ حیات پیش کیاہے اس میں
بلاتفریق رنگ ونسل سب برابر ہیں اور انہیں اپنے اندر جگہ دینے
کے لیے اسلام تیارہے ،لہٰذاان لوگوں نے ایک نظر اپنے ماضی
پرڈالی اور الوداع کہتے ہوئے اپنے مذہب کوچھوڑ کراسلام کی آغوش میں
آتے چلے گئے اور مستقبل کودینی ودنیوی اعتبارسے سنوارنے میں
لگ گئے۔اب کوئی اونچی ذات کاہندو کسی نائر سے چھوجانے اور
غسل کیے بغیر کچھ کھاپی لینے کے جرم میں غریب
الوطنی ،قید اور غلامی کی صعوبتیں اٹھانے کے لیے
مجبور نہ تھا۔یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں
صرف صوفیاء اورعرب تجار کا صرف حصہ ہے۔بلکہ اس کامیابی کے
پیچھے مندرجہ ذیل اسباب عوامل کار فرما تھے:
۱۔ عرب
تجار کی تبلیغی مساعی۔
۲۔ سلاطین کاپے درپے ہندوستان پر
حملہ کرنا اور مسلمانوں کاآباد ہونا ان سلاطین کے زیر اثر جنہوں نے
نوواردمسلمانوں کو اپنے سماج میں بلافرق وامتیاز جذب کیا۔
۳۔ علماء کی تدریسی،تقریری
اورتحریری خدمات۔
۴۔ صوفیاء کرام کی جدوجہد۔
۵۔ انسانی مساوات وبشر دوستی
کا اسلامی عقیدہ۔
۶۔ ذات پات کی تفریق سے نفرت
وبیزاری۔
ان میں سے ہر عامل نے اپنے
اپنے خطوط پر نمایاں کردار اداکیا۔اگر ان میں سے کسی
ایک کو اشاعت اسلام کی بحث سے خارج کردیا جائے تو کئی اہم
سوالات پیدا ہوجائیں گے ۔لہذایہ بات یقینی
طور پرکہی جاسکتی کہ اسلام کی اشاعت تلوار کے ذریعہ ممکن
ہی نہ تھی۔ بلکہ ان سب عوامل واسباب نے مل کر ہندوستانی
سماج کو متاثر کیا اور جس کے نتیجے میں اس کا دائرہ وسیع
تر ہوتا گیا۔ چوں کہ مذکورہ اسباب ومحرکات کے امین وعامل مسلمان
ہی تھے اس لیے انہیں ابتدائی مزاحمت کے بعد جلد ہی
اپنے مشن میں کامیابی مل گئی۔
(باقی آئندہ)
ماخذومراجع:
(۱) سید
ابوالاعلیٰ مودودی الجہاد فی الاسلام،ص:۲،مکتبہ معارف اعظم گڑھ
(۲) سہ
روزہ دعوت دہلی،۲۸/جولائی
۲۰۰۳ء،ص:۴۰،خصوصی شمارہ:اسلام اور غلط
فہمیاں،مضمون:اسلامی احکامات پر اعتراضات اور ان کی حقیقت،مضمون
نگار:ثناء اللہ
(۳) ڈالٹر
رضی الاسلام ندوی ،حقائق اسلام:بعض اعتراضات کا جائزہ،ص:۱۱،مرکزی مکتبہ اسلامی
دہلی،۲۰۰۴ء
(۴) ایضاً،ص:۱۱-۱۲
(۵) ابوظفر
ندوی،مختصر تاریخ ہند،مطبع معارف،اعظم گڑھ،۱۹۷۹ء
(۶) The
History of India as told by its own Historians. H.M. Eliot Ed. by John Dowsan
(Introduction) pp. 22-23 Vol.1. kitab Mahal Allahabad
(۷) سید
صباح الدین عبدالرحمن،اسلام اور مستشرقین(مجمو عہ مقالات سمینار)ص:۵،ج:۲،مطبع
معارف ،اعظم گڑھ،۱۹۸۶ء
(۸) سید
صباح الدین عبدالرحمن،مقالات سلیمان،ص:۳۹۰،ج:۱،مطبع
معارف اعظم گڑھ،۱۹۶۶ء
(۹) سہ ماہی
تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جولائی-ستمبر۱۹۸۵ء،ص:۲۲-۳۳،برصغیر میں
اسلام کی توسیع واشاعت میں صوفیائے کرام کاحصہ،مضمون
نگار:پروفیسر اشتیاق احمد ظلی
(۱۰) جیمس
فرگیسن،اسلامی فن تعمیر ہندوستان میں،ص:۱،جامعہ عثمانیہ،حیدر آباد،۱۹۳۲ء
(۱۱) مولانا
احمد،مسلم حکومتوں کی رواداری،ص:۱۸،ادارہ تاج المعارف،دیوبند
(۱۲) ایضا
(۱۳) بسمبر
ناتھ پانڈے،اسلام اور ہندوستانی ثقافت،ص:۲۹-۳۰،خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ،۱۹۹۸ء
(۱۴) محمد
اسد،اسلام دوراہے پر،ص:۴۶-۴۷،آزاد
کتاب گھر،دہلی،۱۹۶۸ء
(۱۵) سالانہ
مجلہ، الدین،۲۰۰۶-۲۰۰۵ء ،ص :۸۲-۸۳،تھیالوجیکل
سوسائٹی،شعبہ سنی دینیات،اے۔ایم۔یو،علی
گڑھ، مضمون:اسلام ، مستشرقین اور مدارس دینیہ،مضمون نگار:ڈاکٹر
روقیر عالم فلاحی
(۱۶) سید
صباح الدین عبدالرحمن ،مقالات سلیمانی،ص:۳۸۴،ج:۱،مطبع
معارف،اعظم گڑھ،۱۹۶۶ء
(۱۷) ایضاً،ص:۳۸۴-۳۸۵،ج:۱
(۱۸) سالانہ
مجلہ، الدین،۲۰۰۶-۲۰۰۵ء ،ص :
۸۵،تھیالوجیکل سوسائٹی،شعبہ
سنی دینیات،اے۔ایم۔یو،علی گڑھ،
مضمون:اسلام ، مستشرقین اور مدارس دینیہ،مضمون نگار:ڈاکٹر روقیر
عالم فلاحی
(۱۹) سید
سلیمان ندوی،مقالات شبلی،ص:۱۳۳،ج:۴،مطبع
معارف،اعظم گڑھ،۱۹۷۵ء
(۲۰) ایضا،ص:۱۳۳،ج:۴
(۲۱) سید
صباح الدین عبدالرحمن ،اسلام اور مستشرقین،ص۶۳:۲۲،ج:۲،مطبع
معارف،اعظم گڑھ،۱۹۸۶ء
(۲۲) ایضا،ص:۲۲
(۲۳) ایضاً
(۲۴) History
of Aurangzib, Sir Jadunath Sarkar pp. 163-190, Vol.3 OrientLimited,
N.Delhi,1972
(۲۵) بسمبر
ناتھ پانڈے،اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر،ص:۴دیباچہ،خدا بخش اورینٹل پبلک
لائبریری،پٹنہ
(۲۶) ایضاً
(۲۷) History
of Aurangzib, P:474, Vol:5بحوالہ سید صبا ح الدین
عبدالرحمن، بزم تیموریہ،ص:۲۲۲،ج:۱، مطبع معارف اعظم گڑھ،۱۹۹۰ء
(۲۸) History
of Aurangzib, P:253, Vol:3بحوالہ بزم تیموریہ،ص:۲۲۲،ج:۱
(۲۹) مغل ایڈمنسٹریسن،ص:۱۲۹-۱۳۰،بحوالہ:بسمبر
ناتھ پانڈے، اسلام اور ہندوستانی ثقافت،ص:۲۰(مترجم اردو:تقی رحیم، خدا بخش اورینٹل
پبلک لائبریری،پٹنہ،۱۹۹۸ء
(۳۰) ہسٹری
آف انڈیا،ص:۸۳،ج:۳،بحوالہ
اسلام اور ہندوستانی ثقافت،ص:۳
(۳۱) ہندوستان
کی مختصر تاریخ(الفسٹن)،بحوالہ بسمبر ناتھ پانڈے، ہندوستان میں
قومی یکجہتی کی روایت،ص:۱۲، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ
(۳۲) میڈول
انڈیا(ایشوری پرشاد)ص:۱۱۰-۱۱۱،بحوالہ
اسلام اور ہندوسانی ثقافت،ص:۱۱-۱۲۔سید
صباح الدین عبدالرحمن،ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلمان حکمرانوں
کی مذہبی رواداری،ص:۲۹،ج:۱،مطبع معارف ،اعظم گڑھ،۱۹۷۵
(۳۳) سعید
احمد اکبر آبادی،نفسة المصدوراور ہندوستان کی شرعی حیثیت،ص:۵۷،مسلم یونیورسٹی،علی
گڑھ،۱۹۶۸
(۳۴) اسلام
اور ہندوستانی ثقافت،ص:۲۳-۴۵
(۳۵) تاریخ
ہند عہد وسطی میں(مجموعہ مقالات)ص:۲۰۷-۲۷۹،خدابخش اورینٹل
پبلک لائبری،پٹنہ،۱۹۹۹ء
(۳۶) سید
صباح الدین عبدالرحمن،بابری مسجد،ص:۴-۶،مطبع معادف،اعظم گڑھ،۱۹۹۰ء
علامہ یوسف القرضاوی،اسلام
مسلمان اور غیر مسلم،ص:۴۸-۴۹،یونیورسل
بک فاوٴنڈیشن،نئی دہلی،۱۹۹۲ء
(۳۷) ایشور
ٹوپا،ہندی مسلمان حکمرانوں کے سیاسی اصول،ص:۸۹،انجمن ترقی اردو ہند ،علی
گڑھ،۱۹۶۲ء
(۳۸) خلیق
احمد نظامی،سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،ص:۴۴۹ندوة المصنّفین،دہلی،۱۹۵۸ء
(۳۹) ایضا،ص:۴۴۹
(۴۰) ہندوستان
میں قومی یکجہتی کی روایات،ص:۱۳
(۴۱) سلاطین
دہلی کے مذہبی رجحانات،ص:۴۵۲-۴۵۳
(۴۲) امام
ابو یوسف،کتاب الخراج،ص:۸۸،مطبع
سلفیہ قاہرہ،۱۳۵۲ھ
(۴۳) شیخ
محمد اکرام،رود کوثر،ص:۳۲۱-۳۲۴،ادبی
دنیا مٹیا محل،دہلی،۱۹۹۸ء
(۴۴) ہندوستان
میں قومی یکجہتی کی روایات،ص:۵
(۴۵) علاء
الدین ابی بکربن مسعود الکاشانی،بدائع الصنائع،ص:۱۱۱ج:۷مطبوعہ مصر،۱۹۱۰ء
مفتی محمد ظفیرالدین،اسلام
کا نظام امن،ص:۱۴۷-۱۴۸،شعبہ
تصنیف وتالیف،مفتاح العلوم،مئو،۱۹۶۶ء
قاضی ثناء للہ پانی
پتی،تفسیر مظہری،ص:۳۳۵-۳۵۴،ج:۵ندوة المصنّفین،دہلی،
ابوالکلام آزاد،ترجمان
القرآن،ص:۳۸۸-۳۹۷،ج:۳،ساہتیہ اکیڈمی،دہلی
(۴۶) کتا ب
الخراج،ص:۳۶
(۴۷) بدائع
الصنائع،ص:۱۱۳،ج:۷
(۴۸) کتا ب
الخراج،ص:۸۸
(۴۹) بدائع
الصنائع،ص:۱۱۳،ج:۷
(۵۰) ابوالاعلی
مودودی،اسلامی حکومتوں میں غیر مسلموں کے حقوق،ص:۱۷،مرکزی مکتبہ اسلامی
،دہلی،۱۹۹۸ء
(۵۱) محمد
فرید وجدی،المدنیة والاسلام،ص:۱۵۰،مطبوعہ علی گڑھ،۱۳۲۲ھ
(۵۲) سہ ماہی
تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ،جولائی -ستمبر۱۹۹۳ء،ص:۳۸،مضمون ہندووٴں کے ساتھ سلطان
تغلق کا برتا وٴ
مضمون نگار:ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی
ڈاکٹر ظفرالاسلام اصلاحی
،اسلامی قوانین کی ترویج وتنفیذ :عہد فیروز
شاہی میں،ص:۷۳،علی
گڑھ مسلم یونیور سٹی
(۵۳) اورنگ
زیب ایک نیا زاویہ نظر،ص:۴۰-۴۱
(۵۴) مقالات
شبلی،ص:۲۳۱،ج:۱
(۵۵) ابوالکلام
آزاد،جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد،ص:۸۴۔مکتبہ ماحول ،کراچی،۱۹۶۴ء
(۵۶) سید
صباح الدین عبدالرحمن،ہندوستان کے سلاطین،علمااور مشائخ کے تعلقات پر
ایک نظر،ص:۴۶ ،مطبع معادف ،اعظم گڑھ،۱۹۶۴ء
(۵۷) مقالات
شبلی،ص:۲۲۲،ج:۱
(۵۸)
ماہنامہ معارف،اعظم گڑھ،جنوری۱۹۲۰ء،ص:۴۶-۴۷،مضمون: محمد تغلق
کا دور حکومت
(۵۹) جامع
الحکایات ولامع الروایات،ص:۴۷،بحوالہ
مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری،ص:۷۲
(۶۰) اے
شارٹ ہسٹری،ص:۲۱۸-۲۱۹ترجمہ
اردو:مختصر تاریخ ہند،یوسف کوکن عمر ی، ص:۲۱۸-۲۱۹
(۶۱) ٹی۔ڈبلو۔آرنلڈ۔دعوت
اسلام(آرنلڈ)ص:۲۷۷،مطبع فیض
عام،آگرھ،۱۸۹۸ء
(۶۲) اورنگ
زیب ایک نیا زاویہ نظر،ص:۴۳-۴۴
* * *
----------------------------------------
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 01-12 ، جلد: 92-93 ذى الحجة
1429 ھ – محرم 1430 ھ مطابق دسمبر 2008ء – جنورى 2009ء